اقلیتوں کے خلاف تعصب و تشدد ،9 ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر امتناع ، آسام میں 19 لاکھ افراد کی شہریت کو خطرہ تشویشناک ، امریکی سفارتکا رکی رپورٹ
واشنگٹن ۔ 22 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی قانون ساز ایوان کانگریس کی ایک ذیلی کمیٹی سے ایک سرکردہ سفارتکار نے کہا کہ ہندوستان میں دلتوں اور مسلمانوں پر گاؤرکھشکوں کے حملوں کے بشمول اقلیتوں کے خلاف تعصب و تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں جو اقلیتوں کیلئے ہندوستان میں دی گئی قانونی حفاظت و سلامتی کے مطابق نہیں ہے۔ مددگار معتمد خارجہ برائے وسطی و جنوبی ایشیاء الائیس جی ویلس نے ایشیاء بحرالکاہل و عدم پھیلاؤ سے متعلق ایوان کی خارجی نامور کمیٹی کی ذیل کمیٹی برائے ایشیاء، بحرالکاہل و عدم پھیلاؤ نیوکلیئر اسلحہ سے کہا کہ ’’ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تعصب و تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان میں مسلمانوں اور دلتوں پر گاؤرکھشکوں کے حملے بھی شام ہیں۔ علاوہ ازیں 9 ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی کے مخالف قوانین نافذ ہیں۔ یہ تمام واقعات ہندوستان میں اقلیتوں کو دی گئی قانونی حفاظت اور سلامتی کے مطابق نہیں ہے۔ الائیس نے امریکہ نے ہندوستانی حکومت پر زور دیا ہیکہ وہ مذہبی آزادی اور غیرمحفوظ افراد کی حفاظت سے متعلق آفاقی حق کی مکمل طور پر پاسداری کرے۔ اس میں آسام کے ان 1.9 ملین (19 لاکھ) افراد بھی شامل ہیں جن کی شہریت پر سوال اٹھنے کے سبب انہیں بے وطن افراد ہوجانے کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ الائیس نے کہا کہ ہندوستان میں تعصب و تشدد کے ان تمام واقعات کی امریکہ سخت مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہیکہ تمام سازشیوں کو انصاف اور احتساب کے دائرہ میں لایا جائے‘‘۔ امریکی مدگار معتمد خارجہ نے کہا کہ گذشتہ سال مئی میں 68 فیصد اہل رائے دہندوں نے تاریخی انتخابات میں ووٹ دیا۔ ہر مذہب، ذات پات، فرقہ، سماجی و معاشی پس منظر کے حامل ہندوستانی نے پارلیمانی جمہوریت کے اس مثالی مظاہرہ میں حصہ لیا،
جس نے خاتون ووٹرس کی ایک ریکارڈ حصہ داری بھی دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان ایک تیز رفتاری سے آگے بڑھنے والی ایک فعال و متحرک سیول سوسائٹی ہے جمہوری ادارے اپنے بھاری بھرکم خدوخال کے اعتبار سے مثالی حیثیت کے حامل ہیں اور ترقی کے معاملے میں انہیں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں میں عدالتی نظام میں عملہ کی شدید کمی اور اس کا منفرد وفاقی ڈھانچہ ہے جو بسااوقات پولیس نگرانی اور مؤثر نگرانی کے عمل کو پیچیدہ کردیتا ہے۔ ہندوستان کی ایک چوتھائی آبادی اب بھی غریبی سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے۔ مقامی حکومتیں اکثر ترجیحات کیلئے مسابقت کی جدوجہد سے گذرا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہندوستان کے ساتھ بھی ہم انسانی حقوق اور مذہبی آزادی جیسے مسائل پر تال میل میں مصروف ہیں۔ ہم نے ہندوستان پر ماں باپ کی طرف سے بچوں کے اغوا کے واقعات پر پیشرفت کیلئے بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کیونکہ امریکہ بیرونی ممالک میں بشمول اطفال اپنے تمام شہریوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ مسز الائیس ویلس نے کہا کہ امریکہ کو ہندوستان کے ساتھ رفاقت پر فخر ہے کیونکہ اس (ہند) کے دستور میں ایک ایسے سیکولر مملکت کی ضمانت کی دی گئی ہے جس میں قانون کی نظر میں سب کے ساتھ مساویانہ سلوک، آزادی اظہارخیال و خطاب، مرضی کے مطابق مذہب پر انتخاب اور اس کی پیروی کی آزادی کیلئے تمام شہریوں کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے۔ امریکی خاتون سفارتکار نے مزید کہاکہ ہندوستان ایک نہ صرف دنیا کے چار بڑے مذاہب، ہندوازم، سیکولرازم، چین ازم اور بدھ ازم کے مقام پیدائش ہے بلکہ، صوفی، شیعہ، بواہیر جیسے مختلف فرقوں پر مشتمل دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی رکھتا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً تین فیصد عیسائی بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہودی عقائد کی قدیم ترین عبادتگاہ کے اعتبارسے بھی ہندوستان ایک قابل فخر تاریخ کا حامل ہے جہاں 1568ء کا ایک چبد (یہودی عبادتگاہ) ہے۔ تبتی پناہ گزینوں اور ان کے روحانی پیشوا دلائی لاما کی تائید کے بارے میں ہندوستان ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ اس ملک کے کئی علاقے اور علاقائی زبانیں ہیں۔ ہندوستان روپیہ کے نوٹوں پر تقریباً 15 مختلف زبانوں میں اس کی قدر درج کی جاتی ہے۔ یہ ہندوستانی تکثیر و تنوع کی ایک درخشاں مثال ہے۔