مسلمانوں سے بی جے پی کی بیگانگی نامعقول کیوں؟

   

Ferty9 Clinic

شیکھر گپتا
بی جے پی کو ہمیشہ یہ افسوس رہا ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں اُن کے مستحقہ سیاسی وزن سے کہیں زیادہ اثردار ضرب رہتی ہے۔ یہ بات بی جے پی لیڈر، کلیدی دانشورانہ آواز اور میرے سابق رفیق کار (اکسپریس گروپ) بلبیر پنج کے ساتھ تبادلہ خیال میں پوری شدت سے بیان کی گئی ہے۔ ان کا کہنا رہا کہ مسلمانوں کا ویٹو جیسا پاور ہوتا ہے کہ ہندوستان پر کون حکمرانی کرے گا اور کون نہیں؟ یہ گفتگو اُس وقت کی ہے جب 1999ء میں اٹل بہاری واجپائی کی دوسری این ڈی اے حکومت کو لوک سبھا میں واحد ووٹ سے شکست دی گئی تھی کیونکہ تمام ’سکیولر‘ پارٹیاں اس کے خلاف یکجا ہوگئی تھیں۔ اُس سے قبل کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا (1996) کہ واجپائی کی پہلی این ڈی اے حکومت محض 13 یوم میں گرگئی تھی۔ دوسری این ڈی اے حکومت ایک سال سے کچھ زائد عرصہ برقرار رہی، اور پنج نے قابل بحث نکتہ پیش کیا کہ ہر کوئی جس کی مسلم ووٹ کے حصول میں دلچسپی ہے، یا اسے کھو دینے کا خوف ہو، وہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھتے ہوئے خوش ہے۔ مسلم ووٹ ان کیلئے اتنا قیمتی ہے کہ اسے کھو نہیں سکتے، اور سکیولر اقدار کے تئیں ان کا عہد پنج کے بیان کردہ تناظر میں محض آڑ ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نقطہ نظر کو یو پی اے ۔ 1 برسراقتدار آنے کے بعد مزید تقویت ملی، جبکہ بائیں بازو نے تک کانگریس زیرقیادت حکومت کی تائید کی، محض اس لئے کہ بی جے پی کو حکمرانی سے دور رکھا جاسکے۔ تب کانگریس اور بی جے پی کے درمیان نشستوں میں 145 کے مقابل 138 کا معمولی فرق تھا۔
بی جے پی نے مختلف مواقع پر مسلمانوں تک رسائی حاصل کرنے کی سعی کی۔ خود واجپائی اقلیتوں کیلئے پارٹی کے سب سے زیادہ دوست اور سب کو لے کر چلنے والے نہایت اثردار چہرہ تھے۔ ایل کے اڈوانی نے کئی نمایاں مسلم دانشوروں حتیٰ کہ مسلم۔ لیفٹ کو پروان چڑھایا۔ مسلم تہواروں میں حصہ لینے سے لے کر جناح کی تعریف کرنے اور اے پی جے عبدالکلام کا راشٹرپتی بھون کیلئے انتخاب تک واجپائی۔ اڈوانی زیرقیادت بی جے پی نے مسلم ووٹروں کے قلعہ کو توڑنے کی کوشش کی۔ لیکن پارٹی میں سنجیدگی کا فقدان نظر آیا، اور وہ ناکام ہوگئی۔ اس ناکامی کو بی جے پی نے مسلم ویٹو گردانا کہ ہندوستان پر حکمرانی کا معاملہ طے کرنے میں ان کا رول ہے۔ یو پی اے اقتدار کے دہے میں جب کہ بی جے پی کی طاقت ملک بھر میں روبہ زوال رہی، اس نقطہ نظر کو تقویت حاصل ہوئی۔
پھر نریندر مودی اور امیت شاہ 2014ء میں اُبھر آئے، اور سیاسی مساوات کو اُلٹ کر رکھ دیا، یا اندر سے تبدیل کردیا، جو بھی آپ سمجھیں۔ انھوں نے ہندوستان کے مسلم ووٹروں سے اگر کچھ مدد ملی بھی ہو تو کوئی خاص تائید و حمایت کے بغیر مکمل اکثریت جیت لی۔ ہندوستانی سیاست میں نیا رجحان طے ہوگیا۔ کئی بی جے پی قائدین نے کھلے طور پر کہا: ’’ہم اب قبول کرچکے ہیں کہ ہمیں صرف 80 فیصد ووٹروں کے انتخابی میدان میں لڑنا ہے، مسلمانوں اور زیادہ تر عیسائیوں کو شمار میں نہ رکھا جائے۔‘‘ جب وہ اس حقیقت کو قبول کرلیں تب چیلنج سادہ بن جائے گا: ’’اُن ہندو ووٹوں میں سے تقریباً 50 فیصد حاصل کریں، اور ہم انڈیا پر اطمینان بخش اکثریت کے ساتھ حکمرانی کرسکتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اسے 2019ء میں دوبارہ ثابت کیا۔
ہندوستانی سیاست میں نہایت غیرمتوقع بدلاؤ آچکا ہے: بڑی مسلم آبادی جو اب لگ بھگ 20 کروڑ ہے، اسے انتخابی اعتبار سے بے اثر بنا دیا گیا ہے۔ ایسی عام باتوں پر توجہ مت دیجئے کہ مسلم خواتین طلاق ثلاثہ پر امتناع کیلئے شکرگزار ہیں، یا نئی امنگ والے نوجوان مسلمانوں نے بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔ ہر بھروسہ مند اگزٹ پول کے آبادیاتی تجزیہ نے ہمیں اس بارے میں واضح طور پر بتایا ہے۔ اس نے بی جے پی کے ’سکیولر‘ حریفوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے مسلمانوں کو بھی درست جوابات ڈھونڈنے پر مجبور کیا ہے۔ اب، آپ خود کو ہمارے 20 کروڑ مسلمانوں میں سے سمجھ کر دیکھیں، تصویر کچھ اس طرح معلوم ہوگی: میرا ووٹ اپنی طاقت کھو چکا ہے، ٹھیک ہے۔ لیکن کیا مجھے اقتدار کی ترکیب میں بھی میرے معقول حق سے محروم ہوجانا چاہئے؟ مودی کابینہ جس کا اب چھٹا سال ہے، محض ایک مسلم رکھتی ہے: مختار عباس نقوی، انچارج اقلیتی امور۔ یہ ہماری تاریخ میں غیرمعروف مراحل میں سے بھی ہے جو خاصا طویل ہوچکا ہے کہ کوئی بھی کلیدی دستوری عہدوں پر جیسے صدرجمہوریہ، نائب صدر، اسپیکر لوک سبھا، مسلح افواج، سکیورٹی اور انٹلیجنس ایجنسیوں، الیکشن کمیشن یا عدلیہ کے سربراہان میں کوئی مسلمان فائز ہے۔ ایک بھی ریاست نہیں جہاں کوئی مسلم چیف منسٹر ہو اور واحد ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلم وزیر اعلیٰ ہوسکتا تھا، اب ریاست تک نہیں رہی ہے۔ کلیدی وزارتوں میں کوئی بھی سکریٹری مسلم نہیں، نہ ہی کوئی اہم ریگولیٹر مسلمان ہے۔ ہم گہرائی سے جائزہ لے سکتے ہیں، لیکن میں جلدی سے یاد کروں تو نسیم زیدی بحیثیت چیف الیکشن کمشنر (2015-17) آخری مسلم رہے جو کوئی اہم دستوری عہدہ پر فائز رہے، اس کے علاوہ بلاشبہ حامد انصاری نائب صدر تھے۔
ہندوستان کے 37 ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں محض دو مسلم گورنرس ہیں: نجمہ ہپت اللہ اور عارف محمد خان۔ میرے لئے یہ کیسے ہندوستان کی تصویر ہے؟ ہم بی جے پی کی طرف سے پیش کئے جانے والے بعض نعروں اور دلیلوں کو جانتے ہیں: سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سے شروع کرتے ہیں۔ کوئی بڑے فرقہ وارانہ فسادات نہ ہونا اگلی دلیل ہے۔ اس طرح ہم کئی دعوے پڑھتے جاسکتے ہیں۔ ’دی پرنٹ‘ کے رپورٹرس ثانیہ دھنگرا اور فاطمہ خان کے مطابق مودی حکومت میں آئی اے ایس وغیرہ میں مسلم امیدواروں کی شرح کامیابی قدرے بڑھی ہے اور اس کمیونٹی کے اسٹوڈنٹس کو یو پی اے اقتدار کے مقابل زیادہ مائنارٹی اسکالرشپس مل رہے ہیں۔
مگر بلاشبہ واقعی مساویانہ مملکت میں 15 فیصد آبادی کو یقین ہوگا کہ وہ بھی سب کے ساتھ مقام کی مستحق ہے، اقتدار کا کچھ حصہ اور حکمرانی میں کچھ جزو۔ ہم آپ کو اس کا مابعد 2014ء بی جے پی کا جواب دیتے ہیں: ’’آپ سب سے پہلے ہمارے خلاف مجموعی طور پر ووٹنگ کرنے پر اصرار نہیں کرسکتے ہو کیونکہ ہم دشمن ہیں، اور پھر اقتدار میں حصہ کا مطالبہ بھی کرتے ہو۔ بڑی دیدہ دلیری ہے؟‘‘
’’کیا ہندوستانی مسلمانوں سے فرق پڑتا ہے؟‘‘ ایسی شہ سرخی منتخب کرتے ہوئے ہم جو سوال اٹھا رہے ہیں، وہ ٹھیک ٹھیک اس میں مضمر ہے اور اُس بیان کو چیلنج کرنا چاہتا ہے جو دستوری مساوات کی کافی ماند کردہ مگر مصدقہ شبیہہ ہے۔ آپ کے پاس ووٹ ہے، اسکالرشپس، جابس اور مواقع مل رہے ہیں۔ اقتدار میں حصہ کیلئے آپ کو شاید اپنی ووٹنگ کے انتخاب پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ یا کتنی خراب صورتحال ہے کہ 15 فیصد مسلمان کس قدر منتشر ہیں کہ اِس لوک سبھا میں 27 مسلم ایم پیز سے زیادہ نہیں ہوئے۔ آپ نے ایسا ماڈل دیگر مقامات پر بھی دیکھا ہوا ہے۔ اسرائیل میں بڑی مسلم اقلیت کسی بھی جگہ کی واحد عرب آبادی ہے جسے آزادانہ اور مساویانہ ووٹ، سلامتی، معاشی اور سماجی موقع حاصل ہے۔ لیکن سیاسی منصب جہاں تک وہ ترقی کرسکتے ہیں، یعنی حکمرانی کے ڈھانچہ میں ممکنہ مقام محدود ہے۔ یہ جمہوریہ ہے، مگر صیہونی جمہوریہ ہے۔ انڈیا میں مسلمانوں کیلئے نئی صورتحال اسی سے مشابہہ معلوم ہوتی ہے۔ سوائے اس کے کہ ہندوستان کو کبھی ہندو ریپبلک تصور نہیں کیا گیا، نہ اس طرح ترتیب کیا گیا۔ بس اسی نکتہ پر بحث ناکام ہوجاتی ہے۔
ہندوستانی مسلمان بالکلیہ یکساں نوعیت کے نہیں ہیں، نہ ہی برصغیر میں ایسا معاملہ ہے۔ اس بارے میں غور کیجئے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کی 40 فیصد آبادی برصغیر میں رہتی ہے۔ اور اس کے باوجود اس خطہ سے آئی ایس آئی ایس میں مسلمانوں کی تعداد کبھی چند سو سے تجاوز نہیں کی ہے۔ ان میں سے ہندوستانی تو کبھی تین ہندسوں تک بھی نہیں پہنچے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ لازماً اس لئے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ہندوستان، پاکستان یا بنگلہ دیش میں ٹھوس قوم پرستی ہے۔ ان کے پاس اپنا پرچم ہے، قومی ترانہ ہے، کرکٹ ٹیم ہے جس کی وہ تائید کرتے ہیں، اور سیاست دان بھی ہیں جن کو وہ بے حد چاہتے ہیں یا جن سے بے حد نفرت کرتے ہیں۔
خیالی طور پر نئی اور قدیم طور پر اسلامی قوم و مملکت کی حیثیت سے خلافت کا خیال انھیں للچاتا نہیں ہے۔ برصغیر کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کا مختلف نوعیت کی شناختوں پر جھکاؤ بھی رہتا ہے: زبان، نسل، ثقافت، سیاسی نظریہ، محض مذہب نہیں۔ بنگلہ دیش کا وجود ثقافتی اور لسانی شناخت کی حیثیت سے ہوا، جس نے مذہب پر مبنی دو قومی نظریہ پر سبقت حاصل کرلی۔ یہ اس خطہ کی بڑی طاقت ہے، اور کوئی منفی بات نہیں۔ اس کا اطلاق لگ بھگ سارے ہندوستان کیلئے ہوتا ہے۔ مابعد 2014ء اپنی عدم مطابقت کے سبب مسلم اقلیت کا مسلسل الگ تھلگ رہنا اور ان کی خفگی ہندوستان کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ خاموشی کو رضامندی پر محمول مت کیجئے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے پاس بھی نیا متوسط طبقہ ہے۔ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل ایلیٹ طبقہ اُبھر چکا ہے۔ جیسا کہ دہلی یونیورسٹی کے اسکالر عاصم علی نے گزشتہ ہفتے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ نیا تعلیم یافتہ طبقہ اب سخت سوالات پوچھ رہا ہے۔ مسلمانوں کو اُن کی ووٹنگ کی ترجیحات کیلئے سزا دینا ہوسکتا ہے کچھ انتقام کی تسکین لائے اور آپ کی خوشی کا سامان بنے۔ لیکن یہ رجحان خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ کوئی ملک یا سماج خود اپنے زائد از چھٹے حصہ کو حاشیہ پر رکھ کر کبھی خوشحال یا سلامت نہیں رہا ہے۔