مسلمانوں سے ہمدردی کے نام پر بی جے پی کی مسلم دشمنی

   

امجد خان
نریندر مودی اور اُن کی حکومت کے بارے میں اپوزیشن قائدین اکثر یہ کہا کرتے ہیں بلکہ اس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے مسلم دشمنی کے معاملہ میں تمام حدیں پار کرلی ہیں۔ مودی جی سے لیکر اُن کے کابینی رفقاء اور پارٹی قائدین سے متعلق بھی انصاف پسند لوگوں کی رائے ٹھیک نہیں ہے ۔ 2014ء کے عام انتخابات کیلئے جب انتخابی مہم چلائی جارہی تھی اس وقت مودی کو بی جے پی نے اُن کے اپنے سیاسی گرو اور بی جے پی کو موجودہ مقام تک پہنچانے والے ایل کے اڈوانی پر ترجیح دی۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے پرزور انداز میں کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو 60-04 سے گھٹاکر 40-50 روپئے تک لادیں گے ۔ بیرونی ممالک کی بینکوں میں جمع کروایا گیا سیاہ دھن Black Money ہندوستان واپس لائیں گے اور ہر ہندوستانی شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروائیں گے ۔ مودی نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ملک سے بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ کردیں گے ۔ ہر سال 2 کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں گی ۔ خواتین کی عصمتوں کی حفاظت کی جائے گی ، ملک کو سوپر پاور بنائیں گے ، رشوت خوری ، بدعنوانی اور اقرباء پروری کا بھی خاتمہ کردیا جائے گا لیکن مودی کی گزشتہ دو معیادوں اور اب تیسری معیاد کا جائزہ لیں تو ان کے وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے ۔ مہنگائی نے عام ہندوستانی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اب حال یہ ہے کہ 146 کروڑ آبادی کے حامل ہمارے وطن عزیز میں اب بھی 80 کروڑ عوام راشن پر گذارا کررہے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی حکومت غربت کے خاتمہ میں بالکلیہ طورپر ناکام ہوگئی ہے ۔
بقول راہول گاندھی مودی جی ہم دو ہمارے دو فارمولے پر عمل کررہے ہیں ۔ وہ صرف اور صرف اپنے ہمنوا صنعت کاروں و تاجرین کو من مانی فوائد پہنچانے میں مصروف ہے ۔ سطور بالا میں مودی جی کے جن وعدوں کا ہم نے حوالہ دیا آپ خود ان تمام کا جائزہ لیکر اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ انھوں نے کوئی وعدہ وفا نہیں کیا ۔ اس کے برعکس مودی جی حکومت میں ملک کا صرف نقصان ہی ہوا ہے ۔ خاص طورپر بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ جانوروں کے نام پر انسانوں کا قتل یعنی ہجومی تشدد کے واقعات تو روز کا معمول بن گئے ہیں۔ ماؤں بیٹیوں ، بہنوں اور بہوؤں کی عصمتیں محفوظ نہیں ہے ( حالانکہ ) مودی جی نے پرزورانداز میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیا ۔ یہ نعرہ کس طرح کھوکھلا ثابت ہوا اس کا اندازہ ملک کی مختلف ریاستوں بالخصوص بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں پیش آئے عصمت ریزی کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔مندر کے باہر اپنے غریب ماں باپ کے ساتھ سونے والی تین سالہ بچی سے لیکر دارالحکومت دہلی میں اپنے گھر کو محفوظ سمجھنے والی 65-70سالہ خاتون بھی محفوظ نہیں ہے۔
مودی جی کی حکومت میں دلتوں کا بھی برا حال ہے ۔ اگر کوئی کمسن دلت طالب علم اپنے برہمن استاد کے گھڑے پانی پیتا ہے تو اسے مار مار کر موت کے منہ میں پہنچادیا جاتا ہے ۔ کسی اسکول میں دلت خاتون خانسا ماں ہوتی ہے تو ذات پات کے نام پر اپنی اپنی روٹیاں سیکھنے والے مذہب کے ٹھیکدار اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں ۔ انسانی اقدار کس طرح روبہ زوال ہے اس کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے جہاں اگر کوئی دلت گھوڑی پر اپنی بارات نکالتا ہے تو اعلیٰ ذات کے لوگ اس پر یہ کہتے ہوئے سنگباری کرتے ہیں ، پرتشدد حملے کردیتے ہیں کہ تو دلت ہے اور دلت کو گھوڑی پر بارات نکالنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ حالیہ عرصہ کے دوران راجستھان کے رام گڑھ میں تعمیر کردہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے قائد اپوزیشن وہاں پہنچے تب بی جے پی کے ایک لیڈر آہوجہ نے مندر میں گنگا جل کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے اُس کی صفائی کروائی ۔ آہوجہ کا کہنا تھاکہ مندر میں اپوتر ( ناپاک ) آگیا تھا ، ایسے میں اسے پاک کرنا ضروری تھا ۔
بہرحال مودی جی 2014 سے پہلے اور آج تک جو وعدے کئے انہیں پورا نہیں کیا بلکہ ملک کو درپیش اہم مسائل پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کیلئے مسلمانوں کے خلاف بلز پیش کئے۔ شہریت ترمیمی قانون، مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کی منسوخی ، طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینے والا قانون اور اب وقف ترمیمی قانون اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ مودی حکومت بار بار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وقف ترمیمی بل اور دوسرے مسلم مخالف بل صرف اور صرف مسلمانوں سے ہمدردی کے باعث پیش کئے گئے حالانکہ مسلمانوں سے ہمدردی سے متعلق مودی اور ان کی حکومت کے دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے 240 ارکان لوک سبھا میں ایک بھی مسلم رکن نہیں ہے ۔ راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کا کوئی مسلم رکن نہیں ہے ۔ مرکزی کابینہ میں ایک بھی مسلم وزیر شامل نہیں ہے ۔ دوسری طرف ملک بھر میں فرقہ پرستی کا دور دورہ ہے ۔ مساجد کے نیچے منادر تلاش کی جارہی ہیں ۔ مساجد اور تاریخی مقامات پر دعوے کئے جارہے ہے ں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکی ٹیرف کے بارے میں عوام کو وقف کروانے سے گریز کیا جارہا ہے۔