سیاست فیچر
مرکزی وزارت داخلہ نے حال ہی میں ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پڑوسی ملکوں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے اقلیتی برادری کے وہ لوگ ملک میں پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے بغیر ہندوستان میں رہ سکتے ہیں جو ان ملکوں میں مذہبی ظلم و جبر کا شکار ہوئے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ نے جن اقلیتی برادریوں کو یہ اجازت دی ہے۔ ان میں ہندو، بدھسٹ، چین، پارسی، سکھ اور عیسائی شامل ہیں جبکہ مسلمانوں پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے ساتھ حکومت کا یہ تعصب اور اس کی جانبداری نہیں ہے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ مرکزی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (CAA) منظور کروایا اور گزشتہ سال اس قانون کا نفاذ عمل میں آیا ہے۔ سی اے اے کے بہانہ بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں بالخصوص آسام میں مسلمانوں کو غیرملکی قرار دے کر ستایا جارہا ہے اور اس ضمن میں بے شمار رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب تو مرکزی وزارت داخلہ نے مرکزی اور ریاستی زیرانتظام علاقوں کو غیرملکی و غیرقانونی شہریوں کیلئے مراکز حراست یا حراستی کیمپس قائم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ان حراستی مراکز میں ان لوگوں کو رکھا جائے گا جو اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں یا ضمانت نہیں دے پاتے۔ واضح رہے کہ ایسے لوگوں کو حراستی مراکز میں اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک انہیں ان کے ملک واپس نہیں کیا جاتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی بنگال اور آسام کے مسلمانوں کو ’’بنگلہ دیشی‘‘ قرار دے کر ایک ایسی سازش پر عمل کیا جارہا ہے جس کا مقصد جان بوجھ کر بیچارے مسلمانوں کو ستانا اور اپنا اقتدار مستحکم کرنا ہے۔ اس معاملے میں آسام بدترین مثال ہے۔ جہاں جمعیتہ العلماء کے ایک وفد نے اس کے صدر مولانا محمود مدنی کی قیادت میں دورہ کرکے وہاں کی ہیمنتا بسوا سرما اور ان کی حکومت کو یہ احساس دلایا کہ مذہب کی بنیاد پر تعصب و جانبداری سے ملک اور ریاست کو صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے، فائدہ نہیں اور کسی کا اقتدار مستقل نہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کون قانون کے مطابق غیرملکی ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ مرکزی و ریاستی حکومتیں، مرکزی زیرانتظام علاقوں کے ایڈمنسٹریشن، ضلعی کلکٹران اور مجسٹریٹس ہی کرسکتے ہیں اور مرکزی حکومت جو فارنرس ٹریبیونل کے پاس مقدمہ بھیجے وہ کر سکتے ہیں۔ حکومت کے حکم نامہ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ غیرملکی باشندے، متعلقہ اتھاریٹی کی اجازت کی بناء پانی بجلی اور پٹرولیم جیسے شعبوں کی پرائیویٹ کمپنیوں میں کام نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی نجی کمپنیاں، ڈیفنس، خلائی ٹیکنالوجی (Space Technology) جوہری توانائی اور انسانی حقوق کے شعبوں میں سنٹرل گورنمنٹ کی اجازت کی بناء کسی بھی غیرملکی باشندے کو ملازمتیں نہیں دے سکتی۔ یہ بھی بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے مذکورہ حکم نامہ تو جاری کیا لیکن اس نے لوک سبھا میں یہ واضح نہیں کیا کہ ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کیلئے کونسی قانونی دستاویزات کی ضرورت ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے ہاں یہ کہا ہے کہ شہریت کا تعین سٹیزن شپ ایکٹ 1955 اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین سے ہوتا ہے۔ ہم نے آسام کا حوالہ دیا جہاں کے چیف منسٹر نے حال ہی میں سیدہ حمید اور مولانا محمود مدنی جیسی شخصیتوں کو گرفتار کرکے بنگلہ دیش بھیجنے کی دھمکیاں دی ہیں حالانکہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی جملہ آبادی کا 40% ہے۔ ان حالات میں وہاں کے مسلمانوں، مسلم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ جمہوری انداز میں حکومت کے متعصبانہ رویہ اور جانبداری کے خلاف جدوجہد کریں اور دیگر آبنائے وطن کو اس بات کا قائل کروائیں کہ صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ تعصب و جانبداری برتنا، ان کے انسانی حقوق پامال کرنا، ملک کیلئے اور ریاست کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ صرف آسام کے ہی نہیں ملک بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے قانونی دستاویزات درست کرلیں تاکہ فرقہ پرستوں کو کوئی موقع نہ مل سکے۔