روش کمار
ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا عہد دلایا جارہا ہے۔ ضرورت پڑنے پر مرنے اور مارنے کا عہد دلایا جارہا ہے۔ یہ دہلی میں ہوا ہردوار میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا اور وہاں ایک مذہب کے ماننے والوں کا صفایا کرنے کیلئے نعرے لگائے گئے۔ مارنے کی بات کہی گئی، ہتھیار اٹھانے کی بات کی گئی۔ قتل عام کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ ایسے اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے دستور نے پولیس کو اختیارات دیئے ہیں، لیکن اب ان کارروائیوں پر بات کرنے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اسی طرح کے نعرے دہلی میں جنتر منتر پر بھی لگ چکے ہیں اور مختلف مقامات پر لگتے رہتے ہیں۔ نعرے لگانے والے کئی لوگوں کو وزیراعظم نریندر مودی کی تائید میں نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی ترقی کی حصہ داری تم نے لی تھی۔ ہندوستان ایک عظیم ملک بنے یہ ذمہ داری کیا تم نے لی تھی۔ بابا صاحب ، بابا صاحب، بابا صاحب، امبیڈکر کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتی، اس پکار کی ستم ظریفی کو اس کی تان پر چھوڑ دیتے ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کی برسی پر ان کی تعریف میں اور دستور بنانے میں ان کے کردار کو ضرور یاد کیا جاتا ہے اور یہاں وزیراعظم نیلے رنگ کی چادر اوڑھ کر آئے ہیں، ڈاکٹر امبیڈکر کی روایات میں نیلے رنگ کا خاص مقام ہے، اس لئے یہ چادر یاد دلا رہی ہے کہ وزیراعظم کو وہ روایت اچھی لگتی ہے لیکن کاشی کے پروگرام میں وزیراعظم نے جس شال اور صدری کا استعمال کیا ہے، ان کے رنگ کچھ الگ ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی برسی پر دستور کے وقار کو لے کر وزیراعظم کافی سنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن اسی دہلی میں 13 دن بعد ان کے حامی دستور کے وجود کو مٹا دینے کے نعرے لگاتے ہیں اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا عہد کرتے ہیں اور حلف دلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک وہی ہے جنہوں نے وزیراعظم کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایشور آپ کو ہندو راشٹر بنانے کا موقع دے۔ اسے دیکھ کر تو آپ وزیراعظم اور یوگی کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتے ہیں۔ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس پروگرام میں شامل لوگ وزیراعظم اور چیف منسٹر پر اعتماد نہیں رکھتے۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان تمام کو دونوں کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ 19 ڈسمبر کی صبح جنوبی دہلی کے بنارسی داس چاندی والا آڈیٹوریم میں یہ سبھا ہوئی جس میں سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوانکے نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا عہد دلایا، اس کا ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ہندو یووا واہنی کے شیر اور شیرنی ہندو راشٹر بنانے کا عہد کررہے ہیں۔ یہ کوئی خفیہ میٹنگ نہیں تھی، نعروں کے ویڈیو بتائے جارہے تھے۔ سریش چوانکے کے خطاب کا کچھ حصہ یوں تھا ’’ وعدہ کرتے ہیں، عہد کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے اور بنائے رکھنے کیلئے آگے بڑھانے کیلئے لڑیں گے، مریں گے۔ ضرورت پڑنے پر ماریں گے، کسی بھی قربانی کیلئے کسی بھی قیمت پر ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہمارا یہ عہد پورا کرنے کیلئے ہمارے گرودیو ہمارے کل دیوتا ہمارے گرام دیوتا بھارت ماتا ہمارے بڑے ہم کو طاقت دیں، ہم کو طاقت دیں، جئے دیں، وجئے دیں، وجئے دیں، وجئے دیں، بھارت ماتا کی جئے۔ اگر کسی کو برا لگے تو میں اپنے الفاظ واپس نہیں لوں گا کیونکہ میں نے سنانے کیلئے ہی بولا ہے‘‘۔
یہ چاہتے ہیں کہ آپ سنیں، اسے واپس نہیں لیں گے۔ دارالحکومت دہلی میں ہندوراشٹر کیلئے عہد دلایا جارہا ہے۔ اس میں سب کو آواز دی جارہی ہے۔ ہندوستان کے اس دستور کی پکار نہیں ہے۔ جسے آزادی کی لڑائی سے جڑے تمام لوگوں نے مہینوں بیٹھ کر بنایا تھا اور 1947ء کی مذمت کے نام پر ہوئے خطرناک تشدد کی آگ سے دور رکھا۔ ہندوستان کو ایک مخصوص مذہب کا ملک قرار نہیں دیا۔ تبھی میں نے سوال کیا کہ 6 ڈسمبر کو امبیڈکر کی برسی کے موقع پر وزیراعظم جس پاکیزگی کا مظاہرہ اتنی سنجیدگی سے کررہے ہیں۔ کیا وہ 19 ڈسمبر کے اس پروگرام میں شامل لوگوں سے خود کو الگ کرسکتے ہیں۔ کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے بابا صاحب امبیڈکر کی توہین نہیں کی ہے؟ کیا بول سکتے ہیں کہ ہندو راشٹر کی بات کرنا ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کے بنائے گئے دستور کی توہین ہے؟ آپ کو یاد ہوگا اگست 2016ء میں وزیراعظم نے گاؤ رکشا کے نام پر ہورہے قتلوں کو صاف صاف کہہ دیا تھا، ہم یہ بھی بتانا چاہیں گے کہ 18 اگست2021ء کے ’’دی ہندو‘‘ کی خبر کے مطابق ہریانہ میں سرکاری طور پر گورکھ دھندہ لفظ کے استعمال پر روک لگ گئی ہے لیکن وزیراعظم کا یہ خطاب 2016ء کا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گاؤ رکشا کے ابھیان میں شامل70-80 فیصد عناصر گاؤ رکشا کے نام پر گورکھ دھندہ کرتے ہیں۔ 6 اگست 2016ء کو وزیراعظم نے کہا تھا کہ کبھی کبھی کچھ لوگ گاؤ رکشا کے نام اپنی دکانیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ مجھے اتنا غصہ آتا ہے،ذبیحہ گاؤ الگ ہے، گاؤ سیوک الگ ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ جو رات بھر سماج دشمنی کا کام کرتے ہیں لیکن دن میں گاؤ رکھشک کا چولا پہن لیتے ہیں۔ میں ریاستی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی تفصیلات اکٹھا کریں جن میں 80% ایسے افراد نکلیں گے جو ایسا گورکھ دھندہ کرتے ہیں جو سماج قبول نہیں کرتا لیکن اپنی برائیوں کو چھپانے گاؤ رکشا کا چولا پہن کر نکلتے ہیں۔