… نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے …
سید، پٹھان، انصاری کے علاوہ اب اشراف اور اجلاف
میں تفرقہ ڈالنے کی کوششیں تیز، بی جے پی کارفرما
حیدرآباد۔30 ۔اگسٹ(سیاست نیوز) بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلمانوں میں نہ صرف ذات پات کی بنیاد پر اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے بلکہ انہیں مسلکی خانوں میں بانٹنے کے علاوہ ان کی مستحکم تنظیموں کو بھی نشانہ بناتے ہوئے انہیں کمزور کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیموں میں شامل مسلم راشٹریہ منچ کے علاوہ ان مقاصد کے حصول کے لئے مسلمانوںکی طرح نظر آنے والے عمامہ پوش و خوش پوشاک افراد کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ شمالی ہند میں مسلمانوں کی تقسیم کے لئے بی جے پی اشراف و اجلاف کے مسائل کے نام پر پسماندہ مسلمانوں کو قریب کرتے ہوئے ان کے اتحاد میں رخنہ پیدا کرنے میں کامیاب ہورہی ہے اور جنوبی ہند میں مسلمانوں کے درمیان ذات پات یا اشراف و اجلاف کے مسائل نہ ہونے کے سبب انہیںمسلک اور ان کی تنظیموں کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں کمزور کرنے کی سازش پر عمل کیا جا رہاہے ۔ جنوبی ہند میں کی جانے والی سازش کا مرکز و منبع بھی شمالی ہند ہی ہے لیکن اس میں جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے بعض مسلم نما چہروں کو شامل کیا گیا ہے جو بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے مسلم تنظیموں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان پیدا کئے جارہے داخلی ‘ مسلکی اختلافات تلنگانہ میں مسلم نوجوانوں کے لئے نئے مسائل پیداکرنے کا سبب بن ر ہے ہیں ۔ محکمہ پولیس نے اس مرتبہ شہر حیدرآباد کے بجائے اضلاع کے نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف کاروائیوں کا منصوبہ تیار کیا ہے اور تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں جاری مسلم نوجوانوں کو پولیس ہراسانی کے متعلق عہدیداروں کی جانب سے یہ استدلال پیش کیا جا رہاہے کہ مذکورہ نوجوان پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی سرگرمیوں کے سلسلہ میں محکمہ داخلہ یا مرکزی حکومت کی جانب سے اب تک یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ یہ کوئی ممنوعہ تنظیم ہے یا اس تنظیم سے وابستگی کوئی جرم ہے لیکن اس کے باوجودمسلم نوجوانوں کو کی جانے والی ہراسانی کے سلسلہ میں ذرائع کا کہناہے کہ بعض نام نہاد مسلم گوشوں کی جانب سے مسلسل پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف شکایات کی بنیاد پر بطور احتیاط پولیس کی جانب سے پاپولر فرنٹ سے وابستہ نوجوانوں پر نظر رکھی جا رہی ہے اور انہیں متنبہ کیا جا رہاہے۔ تلنگانہ کے اضلاع میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف بی جے پی کے آلہ کار کے طور پر کام کرنے والی تنظیموں کے ذمہ دار مسلسل پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف شکایت درج کرواتے ہوئے تنظیم سے وابستہ نوجوانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے مقاصد کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کیاجاسکے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کئے جانے کی حمایت اور صوفیاء اکرام کی تعلیمات کو عام کرنے کے مقصد کے تحت مرکزی وزارت داخلہ‘ خارجہ اور قومی مشیر سلامتی سے ملاقاتوں اور اجلاسوں کے انعقاد کرنے والوں نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے سلسلہ میں مسلسل نمائندگیوں کے علاوہ قراردادوں کی منظوری کے ذریعہ مرکزی حکومت کے مقاصد کو پورا کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں اور اب ان کوششوں کے اثرات ریاست تلنگانہ میں نظر آنے لگے ہیں۔ ماہرین قانون کے مطابق تنظیم سے وابستہ افراد کے خلاف ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں منظم طریقہ سے مقدمات درج کرتے ہوئے اور ان مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے تنظیم پر پابندی کے لئے سفارش کی جاسکتی ہے۔ م (سلسلہ صفحہ 2 پر)
سلسلہ صفحہ آخر سے
مسلمانوں کو مسلکی فرقوں میں بانٹنے کی سازش ہورہی ہے
2014 میں نریندر مودی کو اقتدار حاصل کرنے کے بعد مسلمانوںکے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کا مشاہدہ کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ کس طرح مسلمانوں کے درمیان کام کرنے والوں کو کس طرح سے منظم انداز میں نشانہ بناتے ہوئے کاروائیاں کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف کی گئی کاروائی کے لئے بھی مسلمانوں کا استعمال کیا گیا اور جن لوگوں کا استعمال کیا گیا ان کو آزاد میدان واقعہ میں مقدمات کا شکار بنایا گیا۔ اسی طرح اس 7 سالہ دور اقتدار کے دوران داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی پر تبدیلی ٔ مذہب کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا گیا اور وہ قریب ایک سال سے اترپردیش کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اسی طرح کورونا وائرس کی وباء کے آغاز کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور مولانا سعد صاحب کی گرفتاری کی ناکام کوشش ہوئی ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ملک میں گجرات فسادات کے بعد متاثرین کو انصاف رسانی کے عمل میں تعاون کرنے والی غیر مذہبی شخصیات کو بھی مسلمانوں کی مدد کرنے کی پاداش میں گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور جو لوگ گرفتار ہیں ان میں تیستا سیتلواد‘ آر بی سری کمار (آئی پی ایس)سنجیو بھٹ (آئی پی ایس) کے علاوہ دیگر شامل ہیں ۔ مسلمانوں کی مستحکم تنظیموں کو کمزور کرنے اور ان کے لئے کام کرنے والوں کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ حکومت تلنگانہ بالخصوص چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی کو ریاستی پولیس سے دریافت کرنا چاہئے کہ آیا وہ کس کے احکام پر تلنگانہ میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے جڑے ہوئے نوجوانوں کو ہراساں کررہی ہے اور کس کے اشاروں پر یہ کہا جا رہاہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے کارکنوں کو دہشت پسند اور شدت پسند قرار دیتے ہوئے ان سے ملاقات کرنے والو ںکو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے!