مسلمانوں کیلئے 12 فیصد تحفظات 4 ماہ کا وعدہ تھا، 100 ماہ گذر گئے

,

   

قبائیلی تحفظات کا جی او صرف 13 دن میں جاری کردیا گیا، کیا یہ ہی گنگا جمنی تہذیب ہے؟
کے سی آر کا تلنگانہ ماڈل ؟

حیدرآباد ۔ یکم اکٹوبر (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے ایس ٹی طبقات کے تحفظات کو 10 فیصد تک توسیع دیتے ہوئے جی او 33 جاری کردیا، جس پر آج سے عمل ہوگا۔ تلنگانہ کی تحریک میں سربراہ ٹی آر ایس چندرشیکھر راؤ نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے حکومت کی تشکیل کے اندرون چاہ ماہ اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کرکے اس کو کے سی آر کا وعدہ قرار دیا تھا۔ اقتدار حاصل ہونے کے بعد سدھیر کمیٹی کے نام پر 2 سال ضائع کئے گئے ۔ 2017ء کے دوران اسمبلی کا خصوصی سیشن طلب کرکے 4 فیصد مسلم تحفظات کو 12 فیصد تک توسیع دینے اور 6 فیصد ایس ٹی تحفظات کو 10 فیصد تک توسیع دینے کی قرارداد منظور کی گئی۔ اس کو مرکز سے رجوع کردیا جبکہ بی جے پی 4 فیصد مسلم تحفظات کے خلاف ہے اور اسمبلی میں بی جے پی نے ایس ٹی تحفظات میں توسیع کرنے کی قرارداد کی تائید مگر 12 فیصد مسلم تحفظات کی مخالفت کی۔ سب کچھ معلوم رکھتے ہوئے بھی ٹی آر ایس نے مسلمانوں کے کان خوش کرنے کی کوشش کی گذشتہ ماہ 17 ستمبر کو چیف منسٹر کے سی آر نے بنجارہ ہلز پر بنجارہ بھون اور آدیواسی بھون کا افتتاح کیا اور شام میں این ٹی آر اسٹیڈیم میں ایس ٹی طبقات کے جلسہ سے خطاب میں گریجن بھون اسکیم متعارف کرانے اور ایک ہفتہ میں ایس ٹی تحفظات کو 10 فیصد تک توسیع دینے کا اعلان کیا۔ ایک ہفتہ کے وعدہ کو بالآخر13 دن میں پورا کردیا مگر 12 فیصد مسلم تحفظات سے متعلق 4 ماہ کے وعدے کو 8 سال کی تکمیل کے باوجود پورا نہیں کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے مسلمانوں سے متعلق چیف منسٹر کے سی آر کتنے سنجیدہ ہیں۔ مسلم اور ایس ٹی تحفظات میں توسیع کی اسمبلی میں ایک ساتھ قرارداد منظور کی گئی مگر جب ایس ٹی تحفظات میں توسیع کی گئی تو مسلم تحفظات کی توسیع کے معاملے میں تسلی کے 4 جملے ادا کرنا بھی چیف منسٹر نے گوارا نہیں کیا۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہی بات گونج رہی ہے کیا یہی گنگاجمنی تہذیب ہے یا یہی تلنگانہ ماڈل ہے جس جو چیف منسٹر کے سی آر سارے ملک میں عمل کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔ 4 فیصد مسلم تحفظات پر سپریم کورٹ میں تلوار لٹک رہی ہے۔ اس پر مسلمان فکرمند ہیں۔ اس کا دفاع کرنے حکومت سے کیا اقدامات کئے گئے اس پر چیف منسٹر نے کوئی وضاحت نہیں کی اور نہ اعلیٰ حکام اور ماہرین کا اجلاس طلب کرکے مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی تیار کی گئی ہے، جس سے مسلمانوں میں مایوسی و ناراضگی پیدا ہوگئی ہے۔ن