٭ چندرا بابو نائیڈو اور اسٹالن آبادی بڑھانے کے حق میں
٭ ملک کا دستور ۔ سیکولرازم اور جمہوریت خطرہ میں
٭ فرقہ پرست طاقتیں تلنگانہ میں امن کے دشمن
محمد نعیم وجاہت
ملک میں مسلمانوں کی آبادی کو لے کر فرقہ پرست طاقتیں اور تنظیمیں گمراہ کن مہم چلاتے ہوئے اکثریتی طبقہ میں مسلمانوں کے خلاف غلط فہمی پیدا کرکے اپنا سیاسی الو سیدکھا کررہی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پارلیمانی انتخابات 2024کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں مختلف جلسوں اور ریالیوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو بالواسطہ طور پر نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں کانگریس پارٹی ہندوؤں کی جائیداد، املاک یہاں تک کے خواتین کے منگل سوتر بھی تقسیم کردے گی۔ عہدہ وزارت عظمی کے ایک باوقار عہدہ پر فائز ہوکر کسی بھی شخص کو اس طرح کے غیر شائستہ اور ناپسندیدہ و ناقابل قبول ریمارکس کرنا زیب نہیں دیتا۔ اگر ہم عزت مآب نریندر مودی کی تقاریر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ انہوں نے عہدہ وزارت عظمی پر فائز رہتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ دیا جسے کہنے سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے تھا، جہاں تک مسلمانوں کی ابادی کا سوال ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے حال ہی میں حیدرآباد میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا کہ اگلے ایک ہزار سال میں بھی مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کی آبادی سے زیادہ نہیں ہوگی۔ یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تئیں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں اگر ہم آبادی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ دنیا کی آبادی 8.2 ارب نفوس پر مشتمل ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ ہر دن دنیا میں 3 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ تقریباً 2 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ اس طرح ہم انڈیا کی آبادی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ فی الوقت ہمارے ملک کی آبادی 145 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ ہر روز ہندوستان میں 67 ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہندوستان کی آبادی 17.18 فیصد حصہ پر مشتمل ہے اور اس آبادی میں شمالی ہند کی آبادی ملک کے دیگر حصوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔ 543 پارلیمانی نشستوں میں 130 پارلیمانی حلقہ جنوبی ہند میں واقع ہے جبکہ شمالی ہند کی ریاستوں میں پارلیمانی حلقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہیکہ جنوبی ہند کی آمدنی یا مختلف محاصل کا زیادہ تر حصہ شمالی ہند کے ترقیاتی کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں نے خاندانی منصوبہ بندی پر سختی سے عمل آوری کی لیکن ان ریاستوں کو اس پر افسوس ہونے لگا ہے۔ 2026 تا 2029 کے درمیان ملک میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حدبندی کی جانے والی ہے۔ یہ بتایا جا رہاہے کہ پارلیمنٹ میں شمالی ریاستوں کی نمائندگی مزید بڑھ جائے گی اور جنوبی ہند کی نمائندگی گھٹ جائے گی حال ہی میں اس تعلق سے آندھرا پردیش کے چیف منسٹر اور ٹاملناڈو کے چیف منسٹر ایم کے اسٹالن کے چونکا دینے والے بیانات منظر عام پر آچکے ہیں دونوں چیف منسٹرس نے جنوبی ہند میں نوجوانوں کی گھٹتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش میں زیادہ بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کو مختلف مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف ایم کے اسٹالن نے چندرا بابو نائیڈو سے دو قدم آگے بڑھنے ٹاملناڈو کے لوگوں کو 16، 16 بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا۔
ویسے بھی ملک کے دستور، سیکولرازم اور جمہوریت کو پہلے سے ہی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی ناپاک سازش کی جارہی ہے۔ 2014 کے بعد سے ملک کے حالات تیزی سے بدل گئے۔ ان تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر ملک کی اقلیتوں (مسلمانوں) کو بڑی شدت کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت ملک میں اس طرح کاماحول تیار کیا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں میں ڈر و خوف پیدا کیا جاسکے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں قانون اور دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ فرقہ وارانہ واقعات میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ اس میں زیادہ تر مسلمان متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے دوکانات اور تجارتی اداروں کو خصوصی منصوبہ بندی کے ذریعہ نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ گھروں کو لوٹا جارہا ہے۔ دیگر املاک کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ قانون دستور اور دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بے قصور مسلمانوں کے مکانات بڑی بے دردی سے بلڈوزرس چلاتے ہوئے زمین دوز کیا جارہا ہے۔ شاید ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعہ بلڈوزرس انتظامی کارروائیوں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کی تقلید کی جارہی ہے کیونکہ ظالم جابر اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خلاف بھی بلڈوزر کا استعمال کررہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ فسادات اور فرقہ وارانہ واقعات میں شہید ہونے والے زخمی ہونے والے اور اپنی جائیدادوں و املاک سے محروم ہونے والے مسلمان ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود جب گرفتاری کی بات آتی ہے تو حقیقی خاطیوں کو بچاتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ غیر مسلمانوں کے خلاف برائے نام مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی مرکزی وزارت داخلہ کے علاوہ ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی ہے۔ اس کے باوجود مودی کے ساتھ ان کے کابینہ میں شامل وزرا کی اکثریت اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس مسلموں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ قومی اتحاد کا شیرازہ بکھیرنے والوں کو انتباہ بھی نہیں دیا جارہا ہے جبکہ کوئی مسلمان اس ناانصافی کے خلاف آواز بھی اٹھاتا ہے تو اس کا عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران تلنگانہ میں ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی، میدک میں مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ جینور میں عبادت گاہوں کے ساتھ مسلمانوں کی دوکانات کو نقصانات پہنچایا گیا۔ سکندرآباد میں ایک مندر کو نقصان پہنچایا گیا، یہ بھی قابل اعتراض عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس کے بعد بی جے پی اور دیگر ہندوتوا تنظیموں نے سکندرآباد بند منایا۔ احتجاجی ریالی کے دوران مسجد میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی جس کو پولیس نے ناکام بنادیا۔ احتجاجیوں نے پولیس پر حملہ کیا۔ پولیس کمشنر نے خود سوشل میڈیا پر اس کے ویڈیوز جاری کئے۔ اس کے بعد بی جے پی نے ریاست کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا۔ ظہیرآباد میں بھی مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا، سکندرآباد واقعہ کے بعد شخصیت سازی کے ماہر منور الزماں کے تربیتی ورکشاپ میں شریک ایک طالب علم کی غلطی پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ اس کے برعکس شان رسالت میں گستاخی کرنے والے ہتی نرسنگھا نند سرسوتی کے خلاف تلنگانہ کے بشمول ملک کے مختلف ریاستوں میں مقدمات درج کئے گئے۔ حیدرآباد میں مجلس کے صدر اسد الدین اویسی نے اپنے ارکان اسمبلی، ارکان قانون ساز کونسل کے ساتھ کمشنر پولیس سی وی آنند سے ملاقات کرتے ہوئے تحریری شکایت پیش کی۔ کانگریس حکومت کے تین کارپوریشن اور بورڈ کے صدور نشین کے علاوہ دیگر کانگریس کے قائدین اور مذہبی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی حیدرآباد کے بشمول ریاست کے دیگر اضلاع میں اس کے خلاف شکایت درج کرائی۔ مگر ابھی تک نرسنگھا نند قانون کے چنگل سے آزاد ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے سب کے ساتھ مساوی انصاف کرنا ضروری ہوتا ہے۔