اسمبلی میں مطالبات زر پر قائد اپوزیشن اکبر الدین اویسی کی کے سی آر کے حق میں مداح سرائی
حیدرآباد۔13مارچ(سیاست نیوز) ملک کی دیگر ریاستوں کے مسلمان تلنگانہ میں مسلمانوں کیلئے ہونے والے فلاحی کاموں کے متعلق جان کر حیرت زدہ ہوجاتے ہیں۔ تلنگانہ میں مجلس اور تلنگانہ راشٹر سمیتی کی دوستی ٹی آر ایس حکومت اور کے چندر شیکھر راؤ کی مسلم نوازی کے سبب ہے اور کے چندر شیکھر راؤ سے جب کبھی مسلمانوں کے مسائل کے متعلق مجلس نمائندگی کرتی ہے توچیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤنہ صرف انہیں دلچسپی سے سنتے ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں اقدامات بھی کرتے ہیں۔ قائد اپوزیشن جناب اکبر الدین اویسی نے آج تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں مطالبات زر پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ریاست تلنگانہ ملک میں سرفہرست فلاحی ریاست کا مقام حاصل کرچکی ہے ۔ ریاستی حکومت نے 1لاکھ 80ہزار کروڑ میں 41ہزار988 کروڑ کا بجٹ فلاحی اقدامات پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو لائق ستائش ہے۔ انہو ںنے بتایاکہ ریاست میں زائد 53 سے زائد نمائندگیوں پر چیف منسٹرنے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں اسلامک کلچرل سنٹر کی تعمیر کیلئے 10ایکڑ اراضی کی تخصیص کے علاوہ اس کی تعمیر کیلئے 40کروڑ کے فنڈس کی فراہمی ‘15.4کروڑ کی لاگت سے جامعہ نظامیہ میں آڈیٹوریم کی تعمیر‘ جامعہ نظامیہ کے عالم‘ فاضل اور کامل کی ڈگری کو الحاق کی فراہمی ‘درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ کے ترقیاتی کاموں کے لئے 100 کروڑ کی تخصیص‘ انفارمیشن کمیشن میں مسلم نمائندگی‘ اوردیگر کام شامل ہیں۔ اکبر الدین اویسی نے سال گذشتہ کے اقلیتی بجٹ میں ہونے والی تخفیف کو معاشی ابتری کے سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت تلنگانہ نے مالی سال 2020-21کیلئے جو 1518کروڑ کی تخصیص کی ہے وہ بھی بہت بڑی رقم ہے اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہو ںنے بتایا کہ شادی مبارک اور دیگر اسکیمات سے لاکھوں مسلمانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ مجلس ریاست میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کے ساتھ ہے۔ انہو ںنے ڈبل بیڈ روم اسکیم میں مسلمانوں کو 10 فیصد مکانات کی فراہمی ‘ 69لکچررس کے تقرر اور ان کی خدمات کے انضمام کے احکام کے علاوہ آئمہ و موذنین کو حکومت کی جانب سے مشاہرہ کی اجرائی اور دیگر اسکیمات کا بھی تذکرہ کیا ۔ انہو ںنے بتایا کہ اوورسیز اسکالر شپس اسکیم میں والدین و سرپرستوں کی حد آمدنی کو حکومت نے مجلس کی نمائندگی پر 5لاکھ کیا ہے۔ اکبر الدین اویسی نے ریاست میں اقلیتی اقامتی اسکولوں اور کالجس کے قیام کے علاوہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیئے جانے کی بھی ستائش کی ۔