مسلمان ، انشورنس اور اسلامی بنکنگ سے دور کیوں ؟

   

٭ موجودہ حالات میں انشورنس فرقہ پرست درندوں کا موثر جواب
٭ بنکوں میں مسلمانوں کے لاکھوں کروڑ روپئے سود کی شکل میں موجود !
حیدرآباد ۔ 21 ۔ جنوری : ( سیاست ڈاٹ کام ) : دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی زائد از 1.8 ارب ہے اس طرح دنیا کی آبادی کا وہ جملہ 24.1 فیصد بنتے ہیں ( یہ اعداد و شمار 2015 کے ہیں ) انڈونیشیا کو مسلم آبادی کا حامل سب سے بڑا ملک کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم آبادی پائی جاتی ہے ۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ سے زیادہ ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قدر کثیر آبادی کے باوجود مسلمان بہت زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ عالمی سطح پر بھی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے ۔ ہندوستان میں اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں لیکن مسلم آبادی کے لیے اطمینان کی بات یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے ۔ ایسے میں حالات سے گھبرانے اور مایوس ہونے کی ضرورت ہی نہیں ۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے ’ مایوسی کفر ہے ‘ اگر مسلمان مایوس ہوجائیں تو پھر ان کی بقاء خطرہ میں پڑ جائے گی ۔ ہندوستان میں ہمیں جو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے وہ مزید سنگین رخ اختیار کرے گا ۔ اگر آج خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو وقت کے فرعونوں ہامانوں شدادوں اور نمرودوں سے بچنا ہے تو پھر اپنے رب سے رجوع ہونا ضروری ہے ۔ ورنہ دشمن اپنی مکاری میں کامیاب ہوجائے گا ۔ مسلمان اپنے رب سے رجوع ہو کر اپنی زندگیوں میں سلیقہ پیدا کرتے ہیں تو مخالفین کی سازشیں الٹ سکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر بنکوں میں مسلمانوں کے کروڑہا روپئے بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ ان کی جمع کروائی گئی رقومات پر جو سود آیا ہے وہ تقریبا 68 لاکھ کروڑ روپئے بنتی ہے ۔ جولائی 2017 کو آر بی آئی کی ایک رپورٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا مسلمانوں کی جمع کردہ رقومات پر جو سود کی رقم ہے وہ بنکوں میں پڑی ہوئی ہے اور مسلم دولت مند اور بنک اکاونٹ ہولڈرس اس رقم کو نہیں لے رہے ہیں ۔ حالانکہ ملک کے حالات اور فرقہ پرستوں کی درندگی کے پیش نظر علماء نے واضح طور پر کہدیا ہے کہ سود کی یہ رقم حاصل کر کے غریب اور ضرورت مند مسلمانوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے ۔ ان کی ترقی کے لیے کوئی پروگرامس یا پراجکٹس شروع کئے جاسکتے ہیں اور ساتھ ہی مسلم دشمن طاقتوں سے بچاؤ کے اقدامات کرنے میں بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ دولت مند مسلم خاندانوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملک میں اسلامی بنکنگ کو فروغ دینے آگے آئیں کیوں کہ دنیا کے کم از کم 60 ملکوں میں اسلامی بنکنگ کامیابی سے جاری ہے ۔ مسلمانوں کے دولت مند طبقہ کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ ہمارے ملک میں انشورنس شعبہ سے بھی مسلمان بہت دور ہیں جب کہ بعض ہمدردانہ ملت کے مطابق اسلامی بنکنگ اور انشورنس فرقہ پرستوں کے تمام حربوں کا موثر جواب ہوگا ۔ جان و مال کے انشورنس سے فرقہ پرستوں اور ان کے آقاوں کے حوصلے پست ہوں گے ۔ ہندوستان مسلمانوں کے لیے ایک اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تمام بنکس مسلمانوں کو قرض دینے سے گریز کرتی ہیں اس لیے بھی محلہ واری سطح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ان بنکوں میں مسلمانوں کو خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ کو پہنچ کر یہ دریافت کرنا چاہئے کہ اس بنک نے علاقہ کے کتنے مسلمانوں کو قرض دئیے ہیں ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ بنکوں سے قرض حاصل کرنے میں چھوٹی اقلیت جین اور سکھ سب سے آگے ہیں ۔۔