پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس
پہلے وہ آئے کمیونسٹوں کیلئے اور میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا
پھر وہ آئے سوشلسٹوں کیلئے میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا
پھر وہ آئے ٹریڈ یونینوں کیلئے میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا
پھر وہ یہودیوں کیلئے آئے میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا
پھر وہ میرے لئے آئے اور تب تک کوئی نہیں بچا تھا جو میرے لئے بولتا
: مارٹن نمولر جرمن
مارٹن نمولر جرمن کی پیدائش 1892ء کو ہوئی اور 1984ء میں انہوں نے اپنی آخری سانس لی۔ وہ ایک ماہر ادیان تھے۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا، حالات کے لحاظ سے لکھا۔ ہمارے ملک میں بھی جو حالات ہیں، وہ سب پر عیاں ہیں۔ بہرحال ہفتہ 25 ڈسمبر کرسمس کا دن تھا۔ قبل اس کے کہ کرسمس کی تقاریب اپنے اختتام کو پہنچتی، بعض مقامات پر درمیانی شب سے قبل تمام برائیوں نے جس کے خاتمہ کی حضرت عیسیٰ مسیح نے کوشش کی تھی، تبلیغ کی تھی، دوبارہ اپنے سر ابھارے اور ان برائیوں سے انسانیت کا نقصان ہوا۔ اگر نئے سال کا آغاز ہی تلخ نوٹ کے ساتھ ہو تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صورتحال کیا ہے۔ پچھلے دو ہفتے ملک کے عیسائیوں اور روشن خیال یا ان کے ہم خیال لوگوں کیلئے چیلنج سے پُر رہے۔ جہاں تک سال 2021ء کا سوال ہے، اس سال فادر اسٹین سوامی کی موت ہوئی تھی۔ اسٹین سوامی ٹاملناڈو کے ایک کرسچین مشنری تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اڈیشہ کے قبائیلیوں کے ساتھ گزاری۔ اس طرح ایک انسانی ہمدردی رکھنے والے فادر اسٹین سوامی کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ 2021ء اس لئے بھی ہندوستانی عیسائیوں کیلئے ٹھیک نہیں رہا کیونکہ پچھلے سال کے اواخر میں مدر ٹریسا کی جانب سے قائم کردہ مشنریز آف چیاریٹی پر بیرونی ممالک سے عطیات حاصل کرنے کے معاملے میں پابندی عائد کردی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مشنریز آف چیاریٹیز کے حساب کتاب میں معمولی سی غلطی پائی گئی اور اسی غلطی کو بنیاد بناکر پابندی عائد کردی گئی۔
کرسمس کے دن جو کچھ ہوا، وہ ناقابل معافی ہے۔ یہاں تک کہ اگر عیسائی ، شر پسندوں کو معاف کرنے کیلئے تیار بھی ہیں، اس کے باوجود یہ شر پسند اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا کیا؟ حالیہ جو واقعات پیش آئے ہیں، ان پر ذرا سا غور کیجئے۔ مثال کے طور پر ہریانہ کے انبالہ میں ہولی ریڈیمر چرچ ہے۔ یہ گرجاگھر 1840ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کرسمس ڈے کے درمیانی شب جبکہ گرجا گھر کے دروازے بند کردیئے گئے تھے، وہاں کوئی نہیں تھا، دو افراد گرجاگھر میں داخل ہوئے اور عیسیٰ مسیح کا مجسمہ گرادیا اور پھر سانتاکلاز کی تصاویر کو جلا دیا۔ اس سے دو دن قبل پٹوڈی، گروگرام، ہریانہ میں واقع گرجاگھر میں داخل ہوکر عبادت میں مصروف عیسائیوں کو برا بھلا کہا اور دعائیہ اجتماع میں خلل پیدا کیا۔ ان لوگوں نے گرجا گھر میں جاکر ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگائے۔ اب آگرہ چلتے ہیں۔ اترپردیش کا یہ شہر یادگار محبت ’’تاج محل‘‘ کے باعث سارے عالم میں شہرت رکھتا ہے۔ اسی شہر میں شرپسندوں نے مشنری کالجس کے سامنے نصب کئے گئے سانتاکلاز کی بے شمار تصاویر کو آگ لگا دی۔ بجرنگ دل کے سکریٹری جنرل نے اس طرح کی کارروائیوں اور غنڈہ گردی کو منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہمارے بچوں کو یہ کہتے ہوئے اپنی جانب راغب کرتے ہیں کہ سانتاکلاز ان کیلئے تحفے تحائف لاتا ہے۔ اس طرح کے لالچ کے ذریعہ وہ ہمارے بچوں کو عیسائیت میں شامل کرلیتے ہیں۔ بجرنگ دل کے اس عہدہ دار نے یہ بات تو کہہ دی لیکن شاید وہ یہ کہنے میں ناکام رہے کہ مشنری کالجس نے کئی دہوں سے ہمارے ہزاروں بچوں کو زیور تعلیم سے بھی آراستہ کیا۔ یہ تو رہی بات اترپردیش کے آگرہ کی۔
آسام کے ضلع کاچر میں دو افراد جو زعفرانی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے، کرسمس کی رات پریس بائٹیرن چرچ میں داخل ہوئے اور یہ مطالبہ کیا کہ گرجاگھر میں موجود تمام ہندو اس جگہ کو چھوڑ دیں۔ اسی طرح کرسمس کے دیگر اجتماعات میں بھی شر پسندوں نے گڑبڑ کی اور مشنریز مردہ باد کے نعرے لگائے۔
سال 2021ء کے دوران مختلف ریاستوں خاص طور پر کرناٹک میں تبدیلی مذہب کا بل منظور کیا گیا یا انسداد تبدیلی مذہب کا مسودہ تیار کیا گیا جس کا مقصد عیسائیوں کو نشانہ بنانا تھا کیونکہ عیسائیت کے بارے میں اب ملک میں یہ بات عام ہوگئی ہے کہ ہندو اپنا مذہب ترک کرتے ہوئے عیسائیت قبول کررہے ہیں اور انہیں مختلف ترغیبات دے کر عیسائی بنایا جارہا ہے، حالانکہ اس طرح کے واقعات سے متعلق شواہد نہیں پائے جاتے۔ بہرحال مسلمان اور اب عیسائی ان فرقہ پرستوں کا نشانہ ہیں اور یہ نفرت پر مبنی تقاریر اور بیانات کے ذریعہ غیرہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ چھ ماہ قبل دارالحکومت دہلی میں ’’سلی ڈیلس‘‘ نامی ایک اپلیکیشن منظر عام پر آیا اور چند دن قبل ’’بلی بائی‘‘ نامی اپلیکیشن ممبئی میں منظر عام پر لایا گیا۔ اس اپلیکیشن کے ذریعہ ممتاز مسلم خواتین کو آن لائن نیلامی کیلئے پیش کیا گیا۔ وہ ٹوئٹر ہینڈل جس نے ’’بلی بائی‘‘ اپلیکیشن کو فروغ دیا ، اس کیلئے سکھوں کے نام استعمال کئے گئے جیسے خالصہ سوپر میسسٹ ، جتیندر سنگھ بلر اور ہرپال جس سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ نفرت کے سوداگروں کا اگلا نشانہ سکھ کمیونٹی ہے۔ مسلمان، عیسائی اور سکھ اتنے ہی ہندوستانی ہیں جتنے ہندو ہندوستانی ہیں، انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ دستور کی دفعہ 25 کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ہندوستانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے، لیکن دائیں بازو کے انتہا پسند گروپس مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے اپنے مذہب کے عمل کرنے کے حق کو چیلنج کررہے ہیں جو غیردستوری ہے، تاہم ان غیردستوری حرکات میں سرگرم عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
مسٹر مودی کا ایجنڈہ
آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے، اس کا انکشاف ہردوار کے دھرم سنسد میں کی گئی تقاریر سے ہوتا ہے جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اگر آپ ’’ان کا صفایا چاہتے ہیں تو انہیں قتل کردو… ہمیں ایسے 100 سپاہیوں کی ضرورت ہے جو ان میں سے 20 لاکھ کو قتل کرسکیں (مطلب مسلمان)۔ اپنے مقصد کے حصول کیلئے انہیں قتل کرنے یا خود قتل ہونے کیلئے تیار رہو کیونکہ ہمارے پاس دوسرا امکان نہیں… ہر ہندو بشمول پولیس، فوج، سیاست دان کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کا صفایا اسی طرح کرے جس طرح میانمار میں کیا گیا‘‘۔ یہ باتیں نفرت پر مبنی تقریر سے کہیں زیادہ ہیں، بلکہ ہم اسے قتل عام کہتے ہیں، یہ جو تقاریر ہیں، کسی پاگل کی بڑ یا بکواس نہیں۔ 6 جنوری 2021ء کو ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں مسٹر ہلال احمد کا ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں انہوں نے تفصیل سے یہ بتایا کہ مسٹر مودی نے کیوں اور کیسے بی جے پی ایجنڈہ کی ازسرنو تشریح کی ہے۔ کرسمس تقاریب میں خلل، نفرت انگیز تقاریر اور گندے اپلیکیشنس ان تمام پر وزیراعظم نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے اس کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کی۔ مستقبل کیلئے تیار رہئے۔ تعصب غیرپابند ہوگا اور خود بولے گا یہاں پھر آپ کیلئے کوئی بولنے والا نہیں رہے گا۔