مسلمان اور اوقافی جائیدادیں ہی نشانہ پر کیوں

   

نواب زادہ ملک مظفر عمر خان ناغڑ
صدرنشین مائنارٹی پیس فائونڈیشن،حیدرآباد
مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت جس کے سربراہ جناب نریندرمودی ہیں وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ منظور کرانا چاہتی ہے تاکہ مسلمانوں اور اوقافی جائیدادوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ مرکزی حکومت کے اس منصوبہ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیاہے۔کانگریس جو ایک قدیم جماعت ہے اُس کے قائد راہول گاندھی نے بھی جو لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ہیں اُس کے خلاف پُرزور آواز اٹھائی ہے اور اُس کی شدت کے ساتھ مخالفت کی ہے۔ لہٰذا اس بل کو جسے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں پیش کیا ہے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کردیا گیا ۔ جو اس بل کے بارے میں متعلقہ افراد کی آرا ، مشوروں اور تجاویز کو حاصل کررہی ہے۔ تحریری یادداشت اور مشوروں کو 12؍ستمبر 2024ء تک انگریزی یا ہندی میں ’’جوائنٹ سکریٹری (جے ایم) لوک سبھا سکریٹریٹ روم نمبر 440 سنسدیہ سوندھ نئی دہلی۔110001کو بھجوایا جاسکتا ہے۔یاای میل ایڈریس [email protected] پر ارسال کیا جاسکتا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی عوام کی جانب سے ارسال کردہ یادداشت اور مشوروں کی بنیاد پر مرکز کو رپورٹ پیش کرے گی۔ جس کے بعد مرکزی حکومت اس خصوص میں کوئی قدم اٹھائے گی۔1954 میں وزیراعظم جواہرلعل نہرو کی حکومت نے پارلیمنٹ میں وقف قانون منظور کرایا تھا جس کی روشنی میں مرکزی وقف بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ 1995کے دوران اس قانون میں ترمیم کی گئی تھی اور ہر ریاست میں اسٹیٹ وقف بورڈ قائم کئے گئے تھے۔ وقف ایک عربی لفظ ہے۔جس کے معنی ڈٹنشن اینڈ پروہبیشن ہیں اور یہ خیراتی اداروں کی ترجمانی کرتا ہے۔ اوقافی جائیدادیں ٹرسٹ کے نام پر رکھی جاتی ہیں۔ واقف وہ ہوتا ہے جو ایک خاص ارادہ سے اپنی جائیداد وں کو اللہ کے نام پر اللہ کی رضا کیلئے وقف کردیتا ہے تاکہ غریبوں اور ضرورت مندوں کو فائدہ پہونچایا جاسکے۔ یہ جائیدادیں فروخت نہیں کی جاسکتی ہیں۔ یہ جائیدادیں جو وقف کی جاتی ہیں اور عطیہ کے طور پر دے دی جاتی ہیں اس کا کفیل صرف اللہ ہوتا ہے اور اللہ کے سوا کوئی کفیل نہیں ہوتا ہے۔ یہ جائیدادیں اللہ کے نام پر دی جاتی ہیں اور وقف بورڈ دیانتداری سے ان جائیدادوں کو عوام کی بہبود کیلئے استعمال کرسکتا ہے اور ان کی بقا کیلئے ہی استعمال کی جاتی ہیں ۔ میری اطلاع کے مطابق ایسا نہیں ہورہا ہے اور وقف کی جائیدادوں پر غیر مجاز قبضے ہورہے ہیں۔ اس میں بعض سیاستدان، بااثر لوگ اور غیرسماجی عناصر ملوث ہیں۔ یہ سب لوگ مل بانٹ کر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مسلمانوں کا اللہ کے نام پر استحصال کررہے ہیں۔ ہندوستان میں 30 وقف بورڈس ہیں یہ جو وقف بورڈس ہیں بالکل اگر آپ دیکھیں تو مغربی طرز کے انڈومنٹ کی طرح ہیں۔وقف بورڈ ایک قانونی تشخص ہے اور اس میں نامزد کردہ ارکان ہوتے ہیں۔ جو وقف کی جائیدادوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ بورڈ اس کی جائیدادوں کیلئے کسٹوڈین کو مقرر کرتا ہے تاکہ ان کا مسلمانوں کی بہتری کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ جیسے محلہ اسکول و کالجوں، گیسٹ ہاوزس اورمحلہ پولی کلینکس کا قیام عمل میں لایا جائے اور کالونیاں بنائی جائیں تاکہ آمدنی کے ذرائع پیدا ہوسکیں۔ اس آمدنی سے وقف بورڈ کوچلایا جاسکے اور ضرورت مندوں کی ضروریات کی تکمیل ہوسکے۔لیکن اس کے برعکس ہورہا ہے اور اوقافی جائیدادوں پر غیرمجاز قبضے ہورہے ہیں۔ آپ کی اطلاع کیلئے وقف ایکٹ کے تحت اوقافی جائیدادوں کا دستور ہند کے مطابق تحفظ کیا جاتا ہے اور ان کو شریعت اپلکیشن ایکٹ 1937کی روشنی میں بھی تحفظ دیا جاتا ہے۔حکومت قانونی طور پر اس میں دستور کی روشنی میں کوئی ترمیم نہیں کرسکتی اور جائیدادوں کے موقف کو بدل نہیں سکتی۔ وقف بورڈ اس وقت 8.7 لاکھ جائیدادوں کا مالک ہے جو سارے ہندوستان میں 9.4 لاکھ ایکر پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جس کی قیمت تقریبا 1.2 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس طرح آپ کے وقف بورڈ کو ہندوستان کے تیسرے بڑے زمیندار کا موقف حاصل ہے۔ اس اعتبار سے مسلح افواج اور انڈین ریلوے کے بعد وقف بورڈ کا نمبر آتا ہے۔وقف بورڈ میں گزشتہ مرتبہ 2013 میں ترمیم کی گئی تھی ۔ مگر یہ بات ہے کہ ہندوستانی دستور کے لحاظ سے کوئی انسان کوئی فرد یا کسی ادارہ کو یہ قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ ان جائیدادوں کو فروخت کرے یا رہن رکھوائے۔ 104A ایکٹ کے تحت ان غیر منقولہ جائیدادوں کو دوسرے کسی فرد کو منتقل نہیں کرسکتے۔ وقف بورڈ کی اخلاقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کی سماجی ضروریات کی تکمیل کرے جو وقت کا تقاضہ ہے۔ بے گھروں کیلئے گھر ، تعلیم یافتہ افراد کو قرض ، چھوٹے پیمانہ کی صنعتوں کے بیلٹ کے قیام کے ذریعہ بیروزگار افراد کو روزگار کی فراہمی پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ہم کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہم ضرورت مندوں کی زندگی میں کس طرح خوشحالی لاسکتے ہیں۔ وقف بورڈ میں خیراتی ٹرسٹ ہونا چاہئے تاکہ بیوائوں کی مدد ہوسکے، ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو مستحکم بنایا جاسکے اور ان کو تحفظ دیا جاسکے۔آپ کی اطلاع کیلئے کیتھولک چرچ آف انڈیا ہندوستان میں بہت ساری اراضیات کا مالک ہے۔ کیتھولک چرچ ہندوستان میں تقریبا 7کروڑ ہیکٹرس اراضیات کا مالک ہے۔ جس کی مالیت 20 ہزار کروڑ روپے ہے۔ ان کے ادارے نشانہ پر ہیں۔ ان کے آستانے ٹارگٹ پر ہیں ان کے مدرسے ٹارگٹ پر ہیں۔ شریعت میں مداخلت کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔مسلمانوں اور اوقافی جائیدادوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ اے ریونت ریڈی قابل مبارکباد ہیں کہ ان کی خصوصی ہدایت پر تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے خلاف آواز اٹھائی۔یہ ہندوستان کا پہلا اسٹیٹ وقف بورڈ ہے جس نے وقف ترمیمی بل کو مسترد کردیا۔ ان سارے مسائل سے ہم اس وقت تک مضبوطی سے مقابلہ نہیں کرسکتے جب تک کہ ہمارے بیچ اتحاد نہ ہو اور ہم ایک آوازہوں ۔ مرکزی حکومت وقف ترمیمی بل کے ذریعہ مرکزی وقف بورڈ اور اسٹیٹ وقف بورڈ کو قائم کرنا چاہتی ہے جو پہلے ہی سے موجود ہیں۔ حکومت ان بورڈس میں خواتین اور غیرمسلم افراد کو نمائندگی دینا چاہتی ہے جو بالکل غیر دستوری ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حکومت نے ہندو ٹرسٹس، منادر کے ٹرسٹس کیلئے خواتین اورمسلم نمائندوں کو نامزد کیا ہے جب ہندوئوں کے مذہبی ٹرسٹس میں خواتین اور مسلم نمائندوں کا تقرر نہیں کیا جاسکتاپھر مسلمانوں کے وقف بورڈ س میں خواتین اور غیرمسلم نمائندوں کو کس طرح نامزد کیاجاسکتا ہے، جبکہ دستور ہند اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ آج مسلمانوں میں انتشار پیدا کیا جارہا ہے۔ سنی طبقہ کیلئے علحدہ وقف بورڈ ہے۔ شیعہ طبقہ کیلئے علحدہ وقف بورڈ ہے۔ فرقہ بواہیر اور آغاخانی طبقہ کیلئے علحدہ وقف بورڈس ہیں جبکہ سارے مسلمانوں کیلئے ایک ہی وقف بورڈ ہونا چاہئے جیسا کہ تمام عیسائیوں کیلئے ایک ہی انڈومنٹ ہے اور سارے ہندوئوں کیلئے ایک ہی محکمہ ہندو اوقاف ہے۔ مرکزی حکومت کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ قانون وقف میں ترمیم کیلئے قانون سازی کا ارادہ ترک کردے ، مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہ کرے اور ان کی اوقافی جائیدادوں کو نشانہ نہ بنائے۔ ہمیں امید ویقین ہے کہ مرکزی حکومت اس بل سے دستبرداری اختیار کرلے گی اور بغیر کسی امتیاز کے ملک و قوم کی بقا ء کیلئے کام کرے گی۔