مسلمان اور دلت خود ساختہ قوم پرستوں کے نشانہ پر

   

رام پنیانی
پرگیہ سنگھ ٹھاکر بی جے پی کی کوئی عام رکن نہیں ہے، وہ پارلیمنٹ میں بھوپال کی نمائندگی کرتی ہیں اور اسے حالیہ عرصہ کے دوران وزارت دفاع کی جانب سے بنائی گئی ایک خصوصی دفاعی ٹیم میں بحیثیت رکن شامل کیا گیا، لیکن گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڑسے کی اس نے زبردست ستائش کی اور اسے خراج تحسین پیش کیا جس پر سارے ملک سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ایسی خاتون کو ناتھورام گوڈسے کی ستائش کرتی ہے، مرکزی وزارت دفاع کی کمیٹی سے فوری نکال دینا چاہئے۔ اس طرح اسے کمیٹی سے نکال باہر کیا گیا۔ جہاں تک پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا سوال ہے وہ مالیگاؤں بم دھماکوں کے بعد منظر عام پر آئی۔ ان دھماکوں میں 6 افراد شہید ہوئے تھے۔ ممبئی اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے جنہیں 26/11 (2008) کے دہشت گردانہ حملے میں مارا گیا وہ مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کی تحقیقات کررہے تھے اور تحقیقات کے دوران وہ اس حقیقت تک پہنچ گئے تھے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ کے لئے جس موٹر سائیکل کا استعمال کیا گیا سابق میں وہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی ملکیت تھی۔ یہ حقیقت آشکار ہوتے ہی کرکرے نے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو گرفتار کرلیا اور ایک بہت بڑی سازش بے نقاب ہوئی۔ نتیجہ میں دوسرے کئی عناصر کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اگرچہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو جیل میں ہونا چاہئے تھا لیکن فی الوقت طبی بنیادوں پر ضمانت پر ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو اس وقت شہرت ملی جب اس نے یہ کہا کہ ہیمنت کرکرے نے اسے اذیتیں دیں اور نتیجہ میں اس نے ہیمنت کرکرے کو بددعائیں دیں اور انہی بددعاؤں کا نتیجہ تھا کہ ہیمنت کرکرے مارے گئے۔ تاہم سنگھ پریوار کے اعلیٰ قائدین کے دباؤ کے تحت پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے کرکرے کی موت اور اپنی بددعا سے متعلق بیان واپس لے لیا۔ اس بیان کو واپس لینے کے بعد اس نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہا کہ ناتھورام گوڈسے ایک قوم پرست تھا، ہے اور قوم پرست رہے گا۔ اس مرتبہ بھی بی جے پی کے اہم قائدین نے اس پر دباؤ ڈالا اور وہ بیان واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ وہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اب پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا ایک نیان بیان وارنا نظام کے بارے میں آیا ہے۔ ایک طرف اس نے (13-12-2020) کو کہا کہ جب شدروں کو شدر کہا جاتا ہے کہ تو اپنی جاہلیت خاص طور پر سماجی نظام کے بارے میں لاعلمی کے نتیجہ میں وہ برا محسوس کرتے ہیں۔ شتریہ مہاسبھا کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا کہنا تھا کہ ہمارے دھرماشاسترا میں معاشرہ کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ ریمارک بھی کیا کہ ’’آج کے شتریوں کو اپنے فرائض سمجھنے کی ضرورت ہے اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہوئے انہیں مسلح افواج میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ملک کے لئے لڑسکیں ہیں اور اس کی سلامتی کو مضبوط و مستحکم بناسکتے ہیں۔ اس بات کی پوری پوری توقع ہے کہ اس مرتبہ بھی اس پر مذکورہ بیان اور ریمارکس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے لیکن یہ صرف اتفاق ہی نہیں ہوسکتا جو کچھ وہ کہہ رہی ہے دراصل نسلی قوم پرستوں کے ساتھ گہری سمجھ بوجھ کا ایک حصہ ہے۔ ہم نے سطور بالا میں ہیمنت کرکرے کا ذکر کیا تھا جنہوں نے مالیگاؤں بم دھماکوں کی بڑی گہرائی سے تحقیقات کی تھی اور اس کے نتیجہ میں ہی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر و دیگر انتہا پسند عناصر کی گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں
لیکن اب اس بارے میں یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ یو پی اے II ہی تھی جو چاہتی تھی کہ دائیں بازو کے ہندو گروپس کو دہشت گردانہ واقعات میں ماخوذ کیا جائے۔ بم دھماکوں کی تحقیقات کے دوران آر ایس ایس کے دو کارکن جیل میں بند تھے اور جن کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری تھی انہیں بعد میں ضمانتیں دے دی گئیں یا بری کردیا گیا اور اس کی وجوہات یہی رہی کہ استغاثہ یا قانونی کارروائی کرنے والے حکام سے صاف طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ وہ ان مقدمات میں نرم رویہ اختیار کریں۔ پبلک پراسیکیوٹر روہنی سالیان نے بمبئی کورٹ میں یہ بات کہی تھی اور انہوں نے اس طرح کی ہدایات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ نتیجہ میں روہنی سالیان کو پبلک پراسیکیوٹر کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔
جہاں تک گوڈسے سے متعلق بیان کا سوال ہے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی قبیل کے کئی ارکان ایسے ہیں جو برسر عام گوڈسے کی سالگرہ تقاریب مناتے ہیں، اس کے نام سے مندریں قائم کی جارہی ہیں یہاں تک کہ 30 جنوری 2019 کو ہندو مہاسبھا کی ایک لیڈر پونم پانڈے نے گاندھی جی کے قتل کو تمثیلی انداز میں پیش کیا۔ ہم بات کررہے تھے ذات پات کے نظام سے متعلق وارنا کی اور یہ ان نسلی قوم پرستوں کے گوشت میں کانٹوں کے مانند ہے جبکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے وارنا اور صنفی درجوں کے باعث ہی منوسمرتی کو نذر آتش کردیا تھا۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کے دوسرے سرسنچالک ایم ایس گولوالکر نے بھگوان منو کے قانون کی یہ کہتے ہوئے ستائش کی تھی کہ زمانہ قدیم کے یہ قوانین آج بھی قابل تعریف ہیں۔

آر ایس ایس کے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ نے دستور ہند کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ دستور میں منوسمرتی سے کچھ نہیں لیا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ دستور ہند میں منو سمرتی کے اصولوں کو بھی شامل کیا جائے۔ کئی ہندو قوم پرستوں نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ آزاد ہند کو ایک نئے دستور کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے پاس پہلے سے ہی منوسمرتی کی شکل میں ایک دستور موجود ہے۔ دراصل یہ نسل پرستی پر مبنی نظریات رکھنے والوں کی کوشش کہی جاسکتی ہے اور وہ مسلسل اس بارے میں ایسی زبان استعماال کررہے ہیں جو موثر دور یا اوقات کے لئے موزوں ہونے چاہئے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ دستور کو عملی طور پر خطرہ میں ڈالنے، اسے مٹانے کے لئے ہر کوشش کررہے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دستور ہند کے ساتھ زبانی ہمدردی روا رکھے ہوئے ہیں۔ ان طاقتوں کے لئے مسلمانوں کو بدنام کرنا، ان کی شبیہہ متاثر کرنا اور ہندووں کو متحد و مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں متحرک کرنے میں کامیابی ضرور مل رہی ہے لیکن دلتوں کو الگ تھلگ کرنے کی حکمت عملی بہت پیچیدہ ہے۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا مقصد ہندوستانی معاشرہ میں پائی جانے والی ذات پات کی تقسیم ختم کرنا تھا لیکن ہندو قوم پرستوں نے سماجی سمراستھا منچ (سماجی ہم آہنگی فورم) پیش کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ زمانہ قدیم میں تمام ذاتیں مساوی تھیں اور اتحاد و اتفاق سے زندگی گذاررہی تھیں لیکن مسلمانوں کے آنے کے بعد ان مسلمانوں نے یہاں کے لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنا چاہا اور مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس پھر اس مزاحمت میں وہ بے گھر ہوگئے۔ نتیجہ میں ذات پات غیر مساوی ہوگئے۔ مسٹر نریندر مودی نے اپنے کتاب کرما یوگ جو بعد میں واپس لے لی گئی اس کتاب میں بتایا کہ اپنے ہاتھوں سے گندگی صاف کرنے والے صرف زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے یہ کام نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کام سے انہیں روحانی خوشی بھی ملتی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ نام نہاد قوم پرست طاقتیں جو خود کو ہندوتوا کی سیاسی طاقت کہتی ہیں دلتوں اور قبائیلیوں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ بی جے پی کئی دلت لیڈروں کو اقتدار کا لالچ دے کر رجحانے میں کامیاب رہی ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے جو کچھ بھی کہا وہ یوں ہی نہیں کہا بلکہ ان کے بیان کا مقصد آر ایس ایس اور حکمراں جماعت کے منصوبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فی الوقت ہندوستان میں قوم پرستی کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے وہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھاکے اور کا معاملہ ہے۔ جہاں تک اس نظریاتی تنظیم کے لئے بڑے چیالنج کا سوال ہے وہ دراصل گوڈسے کے نظریہ کو زندہ رکھتے ہوئے گاندھی کا نام لینا ہے اور ذات پات سے متعلق وارنا نظام زندہ رکھتے ہوئے مساوات کی بات کرنا ہے۔