مسلمان اور ہندو کی جان کہاں ہے میرا ہندوستان

   

محمد مصطفی علی سروری
شہریت ترمیمی بل کے پاس ہوجانے کے بعد جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاج کیا تو پولیس نے ان احتجاجی طلبہ کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کیا۔ 15؍ دسمبر 2019ء کے اس واقعہ کے بعد سے دہلی کے شاہین باغ میں شہریوں کی جانب سے عوامی احتجاجی کیمپ شروع کیا گیا اور 31؍ دسمبر کی رات جب دہلی کا درجہ حرارت 8ڈگری سلسیس ریکارڈ کیا گیا ہزاروں خواتین ، بچے اور مرد حضرات دستورِ ہند کے تحفظ کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔
شاہین باغ دہلی میں پارلیمنٹ ہائوز سے تقریباً 14 کیلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرقی دہلی کا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ اوکھلا حلقہ اسمبلی کے تحت آتا ہے، جہاں سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نمائندگی کرتے ہیں۔ شاہین باغ میں جاری احتجاج کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی خاص طور پر کوریج دیا گیا۔ اخبار انڈین ایکسپریس نے یکم ؍ جنوری 2020 کی اشاعت میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق اس علاقے میں عوامی احتجاج 15؍ دسمبر کو شروع ہوا۔ جس کے دوران شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور مجوزہ NRC پر مسلسل صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے۔ اخبار کے مطابق شاہین باغ میں جاری احتجاج کی سب سے اہم بات یہ کہ اس میں شامل شرکاء کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔
نسرین حسن نامی ایک خاتون نے انڈین ایکسپریس کے نمائندے کو بتلایا کہ ہم کہیں جانے والے نہیں ہیں۔ ہم ایک ہی موقف رکھتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کا موقف ایک نہیں ہے۔
شاہین باغ میں جمع ہونے والی مسلم خواتین نے اس بات کو بھی ثابت کردیا کہ مسلم عورتیں گھروں میں قید نہیں ہیں۔ جو کہتے تھے مسلم عورتیں باہر نہیں نکلتی ہیں ان کو ہم نے جواب دے دیا۔ شاہین باغ کے احتجاج کو منظم کرنے والے ایک رضاکار کا نام آصف مجتبیٰ ہے۔ وہ آئی آئی ٹی سے ڈاکٹریٹ کر رہا ہے۔ اس کے مطابق ہمارے پاس کھانے اور دیگر ضروریات کا سامان وافر مقدار میں ہے۔ ہم ایک مہینے تک اس سے گذارہ کرسکتے ہیں۔ ہم نے سونچا ہے کہ اضافی غذائی اشیاء قریب میں واقع روہنگیائوں کے کیمپ میں تقسیم کردیں گے تاکہ ان کے چہروں پر بھی خوشیاں آجائیں۔ کیا شاہین باغ کا احتجاج سیاسی پشت پناہی سے چلایا جارہا ہے۔ اس الزام کی نفی اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتجاج میں شامل خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد کو دیکھ کر ہوجاتی ہے۔
صبا فضیل نام کی ایک طالبہ جو سول سروس کی تیاری کر رہی ہے وہ کہتی ہے کہ مسلم خواتین اس بات کو سمجھ چکی ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون دستور کی دفعہ 14 اور 15 کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس لیے دستور کو بچانے آگے آنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے۔ اور مسلم خواتین اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی ہیں۔ 31؍ دسمبر کی شب پونے گیارہ بجے جب سواراج انڈیا کے یوگیندر یادو شاہین باغ کے احتجاجی کیمپ کو پہنچے تو کہا کہ کل مستقبل میں کوئی مجھ سے پوچھے گا جب ملک کے دستور کو مجروح کیا جارہا تھا تو تم کہاں تھے تب میں فخر سے بولونگا کہ میں بھی شاہین باغ میں موجود تھا۔ نئے سال کی رات میں شاہین باغ کے احتجاجی کیمپ کو مخاطب کرنے والوں میں ریٹائرڈ آئی اے ایس اور نامور جہد کار ہرش مندر بھی شامل تھے۔
قارئین شہریت ترمیمی بل پر صدائے احتجاج بلند کرنے والی خواتین کے متعلق تو آپ نے ویڈیوز بھی دیکھی اور خبریں بھی پڑھی کہ پارلیمنٹ ہائوز سے 14 کیلومیٹر کے فاصلہ پر شاہین باغ کے علاقے میں نوجوان خواتین مرد حضرات اور کمسن بچے اور بزرگ شہری سردیوں کے اس موسم میں اپنے گھر کے آرام کو چھوڑ کر آسمان کے نیچے بیٹھے دستور کے تحفظ کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ وہیں اسی دہلی میں پارلیمنٹ ہائوز سے صرف ڈھائی کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع کناٹ پیالیس کے علاقے میں 31؍ دسمبر کی آدھی رات کو مسلم نوجوان نئے سال کا جشن منانے کے لیے پہنچے ہیں۔
اخبار ہندوستان ٹائمز کی یکم ؍ جنوری 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق عادل خان کی عمر 29برس ہے اور وہ ایک طالب علم ہے۔ عادل نے ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ وہ گذشتہ 3 برسوں سے نئے سال کا جشن منانے کے لیے کناٹ پیالیس کا رخ کر رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی وہ نئے سال کا جشن منانے آیا ہے اور اس کو لگ رہا تھا کہ اس برس جشن منانے والوں کا رش کم ہے۔
قارئین اس واقعہ کا ذکر یہاں اس لیے بھی ضروری ہے کہ ابھی بھی ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ملک کے دستور کو مجروح ہونے سے بچانے کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے۔ دوسری طرف ابھی بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ دستور کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔
قارئین ایک اور اطلاع ایک صاحب نے شہر حیدرآباد سے ہمیں ارسال کی ہے کہ خودہمارے شہر حیدرآباد میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے روز مرہ کے معمول سے ابھی تک باہر نہیں نکلا ہے۔ انہوں نے تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے بتلایا کہ 21؍ دسمبر 2019کی رات تھی۔ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کی مخالفت اور دستور ہند کے تحفظ کے لیے منعقدہ ایک احتجاجی جلسہ سے واپسی کے بعد انہوں نے جب اپنے گھر کی راہ لی جو کہ پوری طرح مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور آرام کے لیے لیٹ گئے ابھی ان کی نیند پوری بھی نہیں ہوئی کہ اچانک زور دار دھماکوں کی آواز سے وہ پریشان ہوکر اٹھ گئے اور باہر نکل کر پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ پڑوسی مسلم گھر میں ولیمہ کی تقریب سے نوشہ واپس لوٹے ہیں اور صبح ساڑھے چار بجے ان کی گھر آمد کی خوشی میں آتش بازی کی جارہی ہے۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ان صاحب نے بتلایا کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود پر ان کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے، دستور ہند کی سیکولر روح کو رخصت کر کے ایک رنگی رنگ میں رنگا جارہا ہے اور مسلمان اب بھی اگر غفلت میں ڈوبے رہیںتو پھر آنے والی نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گی۔کیا ایسے واقعات پر توجہ دی جانی چاہیے؟ یا انہیں نظر انداز کردیا جانا چاہیے۔ دہلی کا عادل خان نئے سال پر بدستور اپنا جشن منانا چاہتا ہے۔ حیدرآباد کے نوشہ موجودہ حالات میں ولیمہ سے واپسی پر آتش بازی کے جشن کو ترک کرنے آمادہ نہیں۔ اس طرح کے لوگوں میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے اہم ضرورت مسلمان مذہب، علاقہ، زبان، رنگ اور نسل سے اوپر اٹھ کر سب ہندوستانیوں کو کندھے سے کندھے ملاکر اٹھنے اور دستور ہند کی اصل روح کو مجروح ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے۔
ملک کے مسلمان مسلم محلوں میں رہتے ہوئے مسلم مینجمنٹ کے اسکول، کالج میں اپنے بچوں کو پڑھاکر مسلم ملکوں میں اپنے بچوں کو روزگار کے خواب سجاکر ہندوستان میں اب سکون سے نہیں رہ سکتے ہیں۔ ان کو اپنا دین اسلام بھی بچائے رکھنا ہے۔ اپنے ساتھ دیگر برادران کو بھی لینا ہے۔ ان کے ساتھ ظلم ہونے پر آواز اٹھانا ہے، اور ان کے کندھے سے کندھے ملاکر کھڑے ہونا ہے۔ تب ہی جاکر ملک کے مسلمان دیگر برادران وطن کو قائل کرواسکیں گے کہ CAA اور این آر سی دستور ہند کے سیکولر کردار کو مجروح کرتا ہے۔
مسلمان اس بات کو بھی سمجھیں کہ دستور ہند کے لئے لڑی جانے والی یہ لڑائی مساجد کے باہر نہیں لڑی جاسکتی ہے۔ کیونکہ فرقہ پرست اس کو بھی مسلمانوں کی لڑائی قرار دینے سے پیچھے نہیں ہٹنے والے۔ کسی ایک فرد یا چند افراد کو برا بولنے، گالی گلوچ کرنے سے بھی اس لڑائی میں کوئی مدد نہیں ملنے والی ہے۔ یہاں ایسا کرنے سے دوستوں کو گنوانے کا خدشہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
اپنی صفوں کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ صفوں کو استوار کرنے کے لیے مذہب کو نہیں قومیت کو پیمانہ بنانا بھی ضروری ہے تاکہ احتجاج کسی ایک قوم کا نہ بنے بلکہ پورے ہندوستانیوں کی تحریک بنے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب بقول اجمل سلطان پوری
مسلمان اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مرے بچپن کا ہندوستان
نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان
مری آشا مرا ارمان
وہ پورا پورا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]