مسلمان اپنی طاقت کو پہچان، تلنگانہ کی انتخابی مہم پر زعفرانی یلغار

   

مودی اور امیت شاہ کی تلنگانہ پر توجہ، متحدہ رائے دہی اور ووٹنگ فیصد میں اضافہ سے فرقہ پرستوں کو روکنا ممکن، 10 حلقہ جات پر بی جے پی کی نظر
حیدرآباد 6 مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ میں 10 لوک سبھا نشستوں کے نشانہ کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف بی جے پی کے قومی قائدین نے مہم کو عوامی مسائل کے بجائے زعفرانی رنگ دے دیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی، مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور دیگر قومی قائدین نے تلنگانہ کی انتخابی مہم کے آخری حصہ میں رائے دہندوں خاص طور پر اکثریتی طبقہ پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ قومی قائدین کی تقاریر سے صاف جھلک رہا ہے کہ پارٹی مذہب کی بنیاد پر رائے دہندوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے تاکہ گزشتہ لوک سبھا چناؤ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ 2019 ء لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو 4 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور قومی قیادت اِس کامیابی کو جنوبی ہند میں داخلہ کا اہم ذریعہ تصور کرنے لگی۔ تلنگانہ جہاں بی جے پی کو سابق میں رائے دہندوں کی سرپرستی حاصل نہیں رہی، اِس مرتبہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ نوعیت کی انتخابی مہم کے ذریعہ تلنگانہ کی 10 نشستوں کو نشانہ پر رکھا گیا ہے۔ پارٹی کے باوثوق ذرائع کے مطابق 6 لوک سبھا حلقوں میں امیدواروں کا موقف مستحکم ہے جبکہ 4 حلقوں میں کانگریس سے کانٹے کا مقابلہ ہے۔ بی جے پی قیادت کو یقین ہے کہ کم از کم 6 تا 8 لوک سبھا حلقوں میں کامیابی حاصل ہوگی جو آئندہ اسمبلی انتخابات میں 119 کے منجملہ 30 تا 40 نشستوں پر کامیابی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ابتدائی دو مراحل کی رائے دہی کے بعد بی جے پی کی قومی قیادت مطمئن دکھائی نہیں دیتی لہذا ملک بھر میں انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تاکہ مذہبی اساس پر رائے دہندوں کی تقسیم کی صورت میں پارٹی کو اکثریتی طبقہ کی مکمل تائید حاصل ہوسکے۔ رام مندر، کشمیر، پاکستان اور مسلم تحفظات کو بی جے پی نے تلنگانہ میں اہم انتخابی موضوع بنایا ہے تاکہ اکثریتی طبقہ میں یہ احساس پیدا کیا جاسکے کہ مسلمان اُن کے حق پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسلم تحفظات کی برخاستگی اور اُنھیں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی طبقات میں تقسیم کرنے کا بار بار تیقن دیا جارہا ہے۔ اب جبکہ تلنگانہ میں انتخابی مہم کو پانچ دن باقی ہیں، بی جے پی نے شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں کے رائے دہندوں پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ کریم نگر، عادل آباد، سکندرآباد، ظہیرآباد، ملکاجگیری اور چیوڑلہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکن گھر گھر پہونچ کر اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں کو قسم دلاکر بی جے پی کو ووٹ دینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ خواتین کو منگل سوتر کے تحفظ کی دہائی دی جارہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریس برسر اقتدار آنے پر ہندو خواتین کا منگل سوتر چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی منظم مہم کا مقابلہ کرنے کے لئے سیکولر پارٹیاں بالخصوص مسلم تنظیمیں اِس قدر متحرک دکھائی نہیں دیتیں جتنا کہ ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کے قدم روکنے کے لئے سیکولر ووٹ بالخصوص مسلمانوں کو اپنے ووٹنگ فیصد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں رائے دہی کے ذریعہ بی جے پی کے منصوبے کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کو کم از کم 2 یا 3 نشستوں تک محدود کرنے میں سیکولر ووٹ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کانگریس پارٹی مطمئن ہے کہ مسلمان اُسے کسی بھی حالت میں اپنا ووٹ دیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی آر ایس جو دوسری سیکولر پارٹی ہے، اُس کے حق میں مسلم رائے دہندوں کا کیا موقف رہے گا۔ کانگریس کی طرح بی آر ایس بھی مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اضلاع سطح پر مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ مسلمانوں کو ووٹ کی اہمیت سے واقف کرانے کے لئے آئندہ والے دنوں میں ریاست کی تمام مساجد کے خطیب و مقررین رائے دہی کو اہم عنوان بناسکتے ہیں۔ 13 مئی کو رائے دہی سے قبل اگر ریاست بھر میں مسلم رائے دہندوں نے ووٹنگ فیصد میں اضافہ اور متحدہ رائے دہی کا فیصلہ کرلیا تو ریاست میں فرقہ پرست طاقتوں کو روکنا آسان ہوجائے گا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو یقین ہے کہ سیکولر اور مسلم رائے دہندے بی جے پی کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے باوجود اس کے سنگھ پریوار کو کارکنوں کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کے ہر رائے دہندے تک رسائی کی کوشش کی جارہی ہے اور بھولے بھالے غیر مسلم خاندانوں کو یہ باور کیا جارہا ہے کہ نریندر مودی کے مرکز میں تیسری مرتبہ اقتدار کی صورت میں ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔ کانگریس پارٹی کو اعتراف ہے کہ اُسے 10 لوک سبھا حلقوں میں بی جے پی سے راست مقابلہ درپیش ہے۔ صرف 4 حلقہ جات ایسے ہیں جہاں بی آر ایس اپنے وجود کا احساس دلاسکتی ہے۔ بی جے پی نے جن لوک سبھا حلقہ جات پر توجہ مرکوز کی ہے اُن میں ناگر کرنول، محبوب نگر، میدک، کریم نگر، عادل آباد، نظام آباد، ظہیرآباد، ملکاجگیری اور چیوڑلہ شامل ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی اور غیر سیاسی تنظیموں کو خاموشی کے ساتھ مسلم رائے دہندوں میں شعور بیداری کے لئے کام کرنا ہوگا تاکہ مستقل طور پر تلنگانہ کو فرقہ پرست طاقتوں کے دباؤ سے آزاد کرایا جاسکے۔ 1