سرکاری وکیل کی بات پر معزز جج کا تبصرہ‘ سپریم کورٹ میںوقف ترمیمی قانون پرعمل آور ی روکنے کی درخواستوں کی سماعت مکمل‘ عبوری فیصلہ محفوظ
نئی دہلی:۔22؍مئی ( ایجنسیز)وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف دائر درخواستوں پر جمعرات (22 مئی 2025) کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آگسٹین جارج مسیح نے بہت اہم تبصرہ کیا۔ جسٹس مسیح نے کہا کہ کوئی جہاں بھی رہے اسلام اسلام ہی رہے گا۔ جج نے یہ بات مرکز کی اس دلیل کے جواب میں کہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے درج فہرست قبائل کی مسلم کمیونٹی اس طرح اسلام کی پیروی نہیں کرتی ہے جس طرح ملک کے باقی حصوں میں کی جاتی ہے۔بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس بھوشن رام کرشن گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ وقف قانون کیس کی مسلسل تین دنوں سے سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے تیسرے دن، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی جانب سے کہا کہ نئے قانون کے تحت درج فہرست قبائل کے زمرے سے تعلق رکھنے والے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی زمینوں کو تحفظ فراہم کرنا درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے درج فہرست ذاتوں کے لوگوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، جو انہیں جائز وجوہات کی بنا پر حاصل ہے۔ایس جی تشار مہتا نے کہا کہ وقف کا مطلب خدا کے لیے مستقل وقف ہے۔ فرض کریں کہ میں نے اپنی زمین بیچ دی اور معلوم ہوا کہ درج فہرست قبیلے کے کسی فرد کو دھوکہ دیا گیا ہے تو اس صورت میں زمین واپس کی جا سکتی ہے لیکن وقف اٹل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کا کہنا ہے کہ ان قبائلی علاقوں میں رہنے والے مسلمان ملک کے باقی حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کی طرح اسلام کی پیروی نہیں کرتے، ان کی اپنی ثقافتی شناخت ہے۔ایس جی تشار مہتا کی اس دلیل پر جسٹس اے جی مسیح نے کہا کہ اسلام اسلام ہی رہے گا۔ انسان جہاں بھی رہتا ہے مذہب ایک ہی ہے۔ مختلف حصوں میں رہنے والے لوگوں کے ثقافتی طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے۔ ایس جی مہتا نے کہاکہ میں صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ قانون پر روک لگانے کی بنیاد ہوسکتی ہے؟تشار مہتا نے کہا کہ وقف کے نام پر زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قبائلی تنظیموں کا موقف ہے کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور وقف کے نام پر ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، کیا یہ مکمل طور پر غیر آئینی نہیں ہے۔منگل سے، نئے CJI بی آر گاوائی کی بنچ نے وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت شروع کی۔ اس سے قبل سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ اس کیس کو دیکھ رہے تھے لیکن ریٹائرمنٹ سے قبل انہوں نے کیس کو جسٹس بی آر گوائی کی بنچ کو منتقل کر دیا۔سپریم کورٹ نے جمعرات کو وقف ترمیمی ایکٹ پر عمل درآمد روکنے کی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے عبوری فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بینچ نے تین دن تک اس معاملے پر عبوری حکم کے نقطٔ نظر سے سماعت کی۔ دورانِ سماعت، چیف جسٹس گوئی نے زبانی طور پر کہا کہ وقف کی رجسٹریشن کی شرط 1923 اور 1954 کے پرانے قوانین میں بھی موجود رہی ہے۔درخواست گزاروں نے اپنی دلیلیں 20 مئی کو پیش کی تھیں، جس کے بعد 21 مئی کو مرکزی حکومت کی طرف سے دلائل دیے گئے۔