صدر جمعیة علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے آج کی بحث پر کہا کہ ہمارے وکلاء کی ٹیم اور خاص کر ڈاکٹر راجیو دھون نے بہت اچھی بحث کی نیز سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون اور ایڈوکیٹ اعجاز مقبول و جونیئر وکلاء نے جس غیر معمولی محنت و جانفشانی کے ساتھ اس مقدمہ کی پیروی کی ہے جمعیة علماء ہند ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔
ایک محب وطن شہری کی طرح مسلمان صبر و تحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں انہیں عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے ۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند بابری مسجد کے تحفظ و بقا اور اس کی بازیابی کے لئے ملک کی آزادی کے بعد 1949ء سے مستقل کوشاں رہی ہے ۔ 11 – 12 فروری 1951ء میں مجلس عاملہ کی میٹنگ میں یہ تجویز منظور کی گئی تھی کہ موجودہ سنگین حالات میں زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مسئلہ کو عوامی نہ بنایا جائے بلکہ قانونی کارروائی جاری رکھی جائے ۔
اس سے پہلے جنوری 1950ء کو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کیا جاچکا تھا اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی ہر میٹنگ میں بابری مسجد کا مسئلہ زیر غور رہا ۔
جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے 1961ء میں ہندوستانی مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی تھی جس میں فرقہ پرستوں کی سازش اور حکومت کے ارادے کو بے نقاب کیا تھا ، اس کے بعد ملک کے مشہور وکلاء کے مشورہ سے جمعیۃ علماء ہند نے یہ فیصلہ کیا کہ ازسر نو پوری تیاری کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کی جائے ۔
چنانچہ ایک سال تک دستاویزات کی پوری تیاری کی گئی پھر 18 دسمبر 1961ء میں سول جج فیض آباد کی عدالت میں مقدمہ دائر کیاگیا ، اس کے بعد سے مسلسل جمعیۃ علماء ہند ایک فریق کی حیثیت سے بابری مسجد کا مقدمہ لڑتی آرہی ہے ۔