نئی دہلی: مسلم نام کا مطلب سلامتی ہے۔ مسلمان ہمیشہ دوسروں کے لئے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسلام دین بھی یہی سکھاتا ہے کہ دوسروں کو کسی بھی طرح ایذا ء نہ دیں۔ احادیث شریفہ میں بھی ا س طرح کی سینکڑوں احادیث موجود ہیں جس میں مسلمانو ں سختی سے ہدایت دی گئی کہ وہ کسی کو بھی بیجا تکلیف نہ دیں او رہر طرح کے جرم سے اپنے آپ کو دور کھیں۔ لیکن آج مسلمان اپنے دین سے دوری کی وجہ سے بد نام ہوتے جارہے ہیں۔
وہ مسلمان جس کی پیدائش معاشرہ سے جرم کو مٹانے کے لئے ہوا ہے وہی آج جرم کی دنیا میں نام کما چکے ہیں۔ پولیس ملازمین میں ایک سروے کروایا گیا۔ اس سروے کے مطابق عام پولیس اہل کارو ں اظہار خیال کیا کہ مسلمان سب سے زیادہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس سروے میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 35فیصد پولیس عملے کا خیال ہے کہ گؤ کشی معاملہ میں اگر ہجوم خود مجرموں کو سزا دیتا ہے یا قانون ہاتھ میں لیتا ہے تو بھی فطری بات ہے۔ یہ سروے ”کامن کاز“ اور ”لوک نیتی آیوگ“ کے ذریعہ کیئے گئے سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیلولپنگسو سائیٹیز نے کروائے ہیں۔ اس جائزہ کا اجراء سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رام جئے چیلمیشور نے کیاہے۔ اس سروے میں کہا گیا ہے کہ مسلمان فطرتاً جرائم کی طرف آمادہ ہوتا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق 21 ریاستوں کے 12 ہزار پولیس اہلکاروں او ران کے 11ہزار اہل خانہ سے مختلف سوالا ت پوچھے گئے توانہوں نے ملک میں بڑھ رہے جرائم میں اضافہ پر حیران کن نظریات پیش کئے۔ اس سروے کے مطابق 43فیصد پولیس عملے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عصمت ریزی کے مجرم کو ہجوم سزادیتا ہے تو اس میں کوئی غیر فطری بات نہیں بلکہ یہ فطری بات ہے۔ اس سروے میں بتایا گیا کہ پولیس محکمہ چاہتا ہے کہ چھوٹے موٹے جرائم کی سزا ٹرائل کورٹ دینے کے بجائے یہ حق پولیس کو سپرد کردیں۔ سروے کے مطابق 72فیصد پولیس کا خیال ہے کہ پولیس پر سیاسی دباؤ ہوتا ہے۔ اس سروے رپورٹ کی رسم اجراء تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے جسٹس چیلمیشور نے کہا کہ پولیس ٹرانسفر کو سزا کے طورپر استعمال کرنا ایک عام بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی عہدہ پر رہتے ہوئے بھی جج غیر ضروری ٹرانسفر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔