مسلمان ہر شعبہ حیات میں نظرانداز

   

چیف منسٹر کا سیکولرازم ماند پڑگیا
ٹی آر ایس مسلم قائدین میں احساس بیگانگی

محمد نعیم وجاہت
ہندوستان کے نمبرون سکیولر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا سکیولرازم ماند پڑتا جارہا ہے۔ کے سی آر نے حصول تلنگانہ کیلئے تمام طبقات اور مذاہب کے رہنماؤں کو جو تیقنات دیئے تھے، اور وعدے کئے تھے، ان میں سوائے مسلمانوں کے، باقی تمام مذاہب اور طبقات کے وعدوں کو پورا کیا جارہا ہے مگر ریاست کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے بارے میں چیف منسٹر کس حد تک سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ گزشتہ 7 سالہ دور حکمرانی اور حالیہ ایم ایل اے کوٹہ کے قانون ساز کونسل کیلئے امیدواروں کے انتخاب سے ہوگیا ہے۔ برسوں سے حکمران ٹی آر ایس ہر شعبہ میں مسلمانوں کو نظرانداز کررہی ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے والے اقدامات کررہی ہے۔ اسمبلی، لوک سبھا، راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل کی نمائندگی میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ جب بھی مقابلہ کرنے کی بات آتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا نامزد عہدوں پر ضرور خیال کیا جائے گا جبکہ نامزد عہدوں کی باری آتی ہے تو وہاں بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ وائس چانسلرس کے عہدوں میں مسلم پروفیسرس کو نظرانداز کیا گیا۔ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن میں مسلمانوں کی نمائندگی کو نظرانداز کردیا گیا۔ تلنگانہ تحریک کے دوران مسلمانوں سے کہا گیا سب سے بڑا وعدہ 12%مسلم تحفظات صرف اسمبلی میں قرارداد محدود کرنے تک محدود ہوگیا۔ اس کیلئے مرکزی حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ اس کے بجائے تلنگانہ حکومت کے دائرہ کار میں رہنے والے فلاحی اسکیمات میں مسلمانوں کو 12% حصہ داری نہیں دی گئی مثلاً ڈبل بیڈروم مکانات، آسرا پینشن کی فراہمی، خود روزگار اسکیمات کیلئے بینکوں کے تعاون کے بغیر قرض، ٹریکٹرس، گائے، بیل، بھینسوں، بھیڑ بکریوں کی تقسیم بجٹ کی فراہمی وغیرہ میں مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا جبکہ یہ سب ریاست کے دائرہ کار میں شامل ہے اور چیف منسٹر کے سی آر خود فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں نہ ہی سرکاری سطح پر اوور نہ ہی ٹی آر ایس کے تنظیمی سطح پر مسلمانوں کو 12% نمائندگی حاصل ہوئی۔ تلنگانہ تحریک کے دوران یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وقف جائیدادوں پر موجود ناجائز قبضوں کو برخاست کرتے ہوئے ایک ایک انچ وقف اراضی وقف بورڈ کے حوالے کی جائے گی۔ 7 سال کے دوران ایک انچ موقوفہ اراضی بھی حکومت نے وقف بورڈ کے حوالے نہیں کی لیکن ایک سال کے دوران ہی وقف بورڈ ، تین مقامات پر تقریباً 1000 ایکر وقف اراضی سے محروم ہوگیا جس میں دو مقدمات سرکاری اور ایک مقدمہ خانگی تھا۔ 7 سال کے دوران کئی قیمتی وقف اراضیات سے وقف بورڈ محروم ہوگیا۔ چیف منسٹر نے وعدہ کیا مگر اس پر کوئی عمل آوری نہیں۔ خانگی تنازعات الگ بات ہے جو سرکاری محکمہ جات سے وقف اراضیات کے تنازعات ہے اس کو حل کرنے کیلئے بھی چیف منسٹر نے کوئی دلچسپی نہیں۔ دیڑھ ماہ قبل چیف منسٹر نے اسمبلی میں وعدہ کیا تھا کہ وقف جائیدادوں کے ناجائز قبضوں کی سی بی سی آئی ڈی کے ذریعہ تحقیقات کرائی جائے گی جس کیلئے ابھی تک احکامات جاری نہیں ہوئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے۔ چیف منسٹر کو مسلمانوں کے مسائل سے کتنی ہمدردی اور دلچسپی ہے۔ چیف منسٹر ہمیشہ امام ضامن کو اہمیت دیتے تھے۔ دہلی روانہ ہو یا کوئی احتجاج کرنا، پہلے گھر سے امام ضامن باندھ کر گھر سے نکلا کرتے تھے یا شہ نشین پر بیٹھ کر امام ضامن قبول کرتے تھے مگر اندرا پارک پر منعقدہ احتجاجی دھرنے میں کے سی آر نے امام ضامن باندھنے سے انکار کردیا جس کی ویڈیو کلپ سوشیل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔ مسلمان بابری مسجد کی شہادت کیلئے بی جے پی سے زیادہ اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو مانتے ہیں جس کا کانگریس کو بھی اعتراف تھا اور کانگریس کی صدارت قبول کرنے پر سونیا گاندھی نے مسلمانوں سے اس کی معذرت خواہی بھی کی تھی۔ مسلمانوں کے جذبات سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود چیف منسٹر نے پی وی نرسمہا راؤ کو کانگریس اور بی جے پی سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ ٹی آر ایس کیلئے کوئی خدمات نہ ہونے کے باوجود ان کی دختر کو کونسل کی رکنیت تحفہ میں پیش کی۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کو پی وی نرسمہا راؤ کے نام سے موسوم کرنے کی مرکزی حکومت سے نمائندگی کی گئی۔ ٹی آر ایس حکومت کے ایکشن سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ بھی سافٹ ہندوتوا کو اپنانے کی کوشش کررہی ہے۔ کانگریس نے جو غلطی کی تھی، وہی غلطی ٹی آر ایس دہرانے کی کوشش کررہی ہے مگر یہ بات حقیقت ہے۔ ہندوتوا کو اپنانے والے یا ذہن رکھنے والے سافٹ ہندوتوا کے بجائے ہارڈ ہندوتوا کو ہی ترجیح دیں گے۔ اکثریتی طبقہ کے قریب ہونے کی کوشش میں کانگریس اقلیتوں کی تائید سے بھی محروم ہوگئی جو اپنے تھے، انہیں یہ سمجھ کر نظرانداز کیا گیا کہ وہ اپنے ہی رہیں گے۔ غیروں کو قریب کرنے کی کوشش میں اپنوں سے دور ہوگئی۔ جی ایچ ایم سی کے نتائج کے بعد ٹی آر ایس بھی سافٹ ہندوتوا کو اپنانے کیلئے اقلیتوں سے دور ہونے کا اکثریتی طبقہ کو پیغام دینے کی کوشش کرتے ہوئے اقلیتوں کی تائید سے بھی محروم ہورہی ہے۔ اس کا محاسبہ کرنا ٹی آر ایس قیادت کیلئے ضروری ہوگیا ہے۔ کانگریس سے ناراض ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے مسلم قائدین اپنے آپ کو ٹی آر ایس میں بیگانہ تصور کررہے ہیں۔ انہیں کسی پروگرام میں مدعو بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ جب ٹی آر ایس میں مسلمانوں سے ناانصافی پر ٹی آر ایس کے ایک اور مسلم قائد سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ قومی پارٹیوں میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔ علاقائی پارٹیوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ چیف منسٹر ، وزراء سے ملاقات نہیں کرتے تو مسلم قائدین سے کیا ملاقات کریں گے۔ ہر دور کی حکومتوں میں دیکھا گیا ہے کہ جو وزیر بنتے ہیں وہ دوسرے مسلمانوں کی عہدوں کیلئے بہت کم ہی نمائندگی کرتے ہیں، شاید انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ دوسروں کی سفارش کرنے پر ان کی اہمیت ختم ہوجائے گی لہٰذا وہ مسلم قائدین سے ملاقات میں کہتے ہیں کہ وہ چیف منسٹر کو پارٹی کے مسلم قائدین کی فہرست پیش کرچکے ہیں۔ مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر اتفاق سے پارٹی قیادت ایسے قائدین سے کسی اور قائد کے نام کے بارے میں رائے طلب کرتی ہے تو اس کے بارے میں مثبت کم منفی زیادہ رائے پیش کی جاتی ہے۔ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ہے۔