مسلم تحفظات : چیف منسٹر خاموش اور گورنر سرگرم

,

   

بلدیات سے مسلم رکن کی روایت ختم، راج بھون کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند

حیدرآباد۔ 26 اپریل (سیاست نیوز) مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تلنگانہ میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کو فراہم کئے جانے والے 4 فیصد مسلم تحفظات کو ختم کردینے کا اعلان کیا اس کے دو دن بعد گورنر تمیلی سائی سوندرا راجن نے میونسپلٹیز میں اقلیتوں کو فراہم کئے جانے والے (معاون رکن) کوآپشن ممبر کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے ترمیمی بل حکومت کو واپس کردیا ہے۔ حکمران جماعت بی آر ایس نے گورنر پر بی جے پی کے اشاروں پر کام کرنے کا جو الزام عائد کیا ہے اس فیصلے سے اس کی صداقت ہوتی ہے۔ بی جے پی بھلے ہی بی جے پی کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ہے مگر وہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ سابق حکمرانوں کی جانب سے مسلمانوں کو فراہم کئے گئے تحفظات اور رعایتیں بی جے پی کو کھٹکنے لگی ہیں۔ پہلے مہاراشٹرا میں مسلم تحفظات کو منسوخ کیا گیا، عین انتخابات سے قبل کرناٹک میں مسلم تحفظات کو منسوخ کیا گیا۔ چار دن قبل مرکزی وزیر داخلہ نے چیوڑلہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تلنگانہ میں مسلم تحفظات کو بھی ختم کردینے کا اعلان کیا ہے جو ریاست میں موضوع بحث بن گیا ہے۔ حکمران بی آر ایس کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے امیت شاہ کے اعلان کی سخت مذمت کی ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی اپنے وجود کو منوانے کے لئے جی توڑ کوشش کررہی ہے۔ ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لئے تمام سیاسی داو پیچ کا استعمال کررہی ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اس کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں مل رہی ہے جس کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی طرح تلنگانہ میں بھی فرقہ پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم تحفظات کو ختم کرنے کا اعلان اسی سازش کا حصہ ہے۔ تاہم گورنر کا ایک دستوری عہدہ ہے۔ راج بھون کے دروازے سبھی کے لئے کھلے رہنے چاہئے۔ ماہ رمضان میں افطار پارٹی کا اہتمام کرنا راج بھون کی روایت رہی ہے۔ مگر گورنر تمیلی سائی سوندرا راجن نے افطار پارٹی کا اہتمام نہیں کیا جبکہ وہ دیگر تقاریب و تہواروں کا پابندی کے ساتھ اہتمام کرتی ہیں۔ لیکن راج بھون کی روایتی افطار پارٹی کے نظم کو ختم کردیا ہے جس کا مسلمانوں کے حلقوں میں سخت نوٹ لیا گیا ہے۔ اسمبلی میں منظورہ بلدی نظم و نسق کے ترمیمی بل کو راج بھون میں 7 ماہ تک زیر التواء رکھا گیا۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد حکومت کو واپس کردیا گیا ہے۔ میونسپلٹیز میں معاون ارکان کی حیثیت سے اقلیتی ارکان کی نامزدگی کو دستور کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تلنگانہ میونسپل ایکٹ ترمیمی بل پر اپنا اعتراض جتایا ہے اور کہا ہیکہ بلدیات کے نظم و نسق میں ملک بھر میں یکساں پالیسی کے لئے مرکز نے دستور کی ایکٹ 74 میں ترمیم کیا ہے۔ میونسپلٹی کی تشکیل، ارکان کا انتخاب نشستوں کے ریزرویشن کا مسئلہ دستور کے پیرا A میں آرٹیکل 243-P ، 243-G میں اقلیتوں کو تحفظات فراہم کرنے کی کہیں بھی وکالت نہیں کی گئی ہے۔ لہذا حکومت اپنے اس فیصلے پر ازسر نو غور کرے دیگر دو بلز حکومت کو واپس کی گئی ہیں۔ اس پر بھی گورنر نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ واضح رہے کہ مقابلہ میں جیت کر نہ آنے والے اقلیتوں کو بلدیات میں بحیثیت معاون ارکان برسوں سے منتخب کیا جارہا ہے۔ ابھی تک اس روایت پر کسی بھی گورنر نے کوئی اعتراض نہیں جتایا ہے مگر موجودہ گورنر نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے حکومت اس پر کس طرح ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔ ن
کرناٹک انتخابات،12اضلاع میں تلگو عوام کے ووٹ اہمیت کے حامل
حیدرآباد۔ 26اپریل(یواین آئی)کرناٹک میں 10 مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات میں تلگوطبقہ مرکز توجہ ہے۔تلگو عوام کی ایک بڑی تعداد جو رئیل اسٹیٹ کی تجارت، زراعت، اعلی تعلیم اور ملازمتوں کے مقصد سے اس کنڑ ریاست میں مقیم ہوگئی ہے ،اپنی قابل لحاظ آبادی کی بنیاد پر بعض حلقوں میں اہم عنصربن گئی ہے، چونکہ دونوں تلگوریاستوں تلنگانہ اورآندھراپردیش کی سرحدات کرناٹک سے ملتی ہیں،ان انتخابات میں تلگو طبقہ کا سیاسی شعور بڑھ گیا ہے جس کے نتیجہ میں ریاست کے 12اضلاع میں بعض حلقوں میں نتائج پر وہ اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
اسی کے پیش نظر سیاسی جماعتیں، ان انتخابات میں ان تلگو عوام کے ووٹوں پر نظررکھی ہوئی ہیں۔متحدہ بیلاری، کُپل، بنگالورورورل، بنگالوروسٹی،رائچور، کولار، تمکور،چتردرگ،چگبلپور،یادگیر، بیدر،گلبرگہ میں تلگو عوام کی تعداد زیاد ہے ۔تلگوطبقہ کے بعض افراد سرگرم سیاست میں بھی ہیں اور بعض سرکاری عہدے بھی رکھتے ہیں۔ریاست کے سیاسی پس منظرکو شکل دینے میں ان کے ووٹ اہمیت کے حامل رہے ہیں۔اسی لئے تمام سیاسی جماعتیں ان کی حمایت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہیں اور اس سلسلہ میں مہم چلارہی ہیں۔کرناٹک کے انتخابات کافی قریبی ہوسکتے ہیں اور تلگوعوام کے رائے دہی کے رجحان سے ان بعض حلقوں میں اہم اثر پڑسکتا ہے ، اسی کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں تلگو رائے دہندوں کو راغب کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑرہی ہیں تاکہ انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنایاجاسکے ۔