محمد نصیرالدین
ہندوستان میں مسلم عہد حکومت جسے عام طور پر عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان “Medieval India” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مذہبی، ثقافتی، سیاسی و سماجی مختلف حیثیتوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ ساتویں صدی عیسوی کی چوتھی دہائی سے شروع ہوا۔ مغربی ساحل پر ’’تھانہ‘‘ اور ’’بھروچ‘‘ کے علاقہ میں مسلمانوں کی اوّلین فوجی مہم حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت سے منسوب کی جاتی ہے۔ جنوب کے ساحلی علاقوں میں عرب تاجروں کی آمد اس علاقہ میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بنی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کا آغاز 93 ھ 712 ء سے ہوا۔ جب کہ نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا۔ سندھ کی فتح کو عام طور پر ’’باب الاسلام فی الہند‘‘ بھی کہا جاتا ہے، چونکہ یہ فتح ہندوستان میں اسلام کے تعارف، قبولیت اور توسیع کا باعث بنی۔ اپنے دور حکمرانی میں محمد بن قاسم نے مذہبی رواداری اور عوام کے ساتھ بہترین سلوک کی کئی ایک مثالیں قائم کیں۔ انھوں نے نہ صرف مذہبی آزادی عطا کی بلکہ اپنے اپنے رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دی۔ اعلان عام کیاکہ کسی کو اپنے مذہب کی پیروی سے نہ روکا جائے، وہ جیسے چاہے زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ محمد بن قاسم نے مالگزاری میں سے 3% حصہ پجاریوں کے لیے مختص کیا تاکہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکے۔ جو لوگ عہدوں اور مناصب پر تھے انہیں برقرار رکھا گیا۔ جن لوگوں کو جنگ کے دوران نقصان اُٹھانا پڑا ایسے تاجروں، دستکاروں اور کاشتکاروں کو فی کس چاندی کے (12) درہم دس ہزار افراد میں تقسیم کئے گئے۔ مزید یہ احکام جاری کئے گئے کہ کاشتکاروں پر زیادہ محنت کا بوجھ نہ ڈالا جائے اور محصول کے حصول میں نرمی برتی جائے۔ ہسٹری آف جہانگیر کے مصنف ڈاکٹر بینی پرساد اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنی حکومت کا جو نظم و نسق قائم کیا وہ اعتدال و رواداری کی روشن مثال ہے‘‘۔
محمد بن قاسم سے لے کر ’’البری، خلجی اور تغلق‘‘ خاندانوں اور پھر مغلیہ سلطنت تک جتنے بھی حکمراں گذرے سب نے رعایا کے ساتھ عدل و انصاف، حُسن و سلوک اور رواداری کو برقرار رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے طویل دور تک عوام مطمئن و خوشحال زندگی گذار رہی تھی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عوام میں بے چینی اور عدم اطمینان پایا جاتا۔
شیر شاہ سوری کے زمانہ میں رعایا کے ساتھ رواداری و فراخدلی پائی جاتی تھی۔ اس کے پیدل سپاہ اور بندوقچی تقریباً سبھی ہندو تھے۔ پریم جیت گور کا شمار بادشاہ کے قریبی سپہ سالاروں میں تھا۔ راجہ رام شاہ نے شیر شاہ کی حمایت میں متعدد جنگیں لڑیں۔ رائے سین کے راجہ پورن مل کو شیرشاہ نے شکست دی۔ شکست کے بعد جب وہ بادشاہ کی خدمت میں آیا تو اس کے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا۔ ایک سو گھوڑے اور خلعتیں عطا کی گئیں اور اس کا قلعہ واپس کردیا گیا۔ نہ مندروں کو توڑا نہ بُت توڑے۔ سرائے بنائے تو ہندو عوام کے لئے علیحدہ سے کھانے اور رہنے کی سہولت مہیا کی۔ غیر مذہبی تنازعات میں عوام حکومت کے قانون کے پابند تھے جبکہ مذہبی اور نجی و خاندانی معاملات کے فیصلے ہندو پنڈتوں کے مشورے سے ہوتے تھے۔ اسی طرح بادشاہ اکبر نے رعایا کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا۔ راجپوتوں کو سلطنت کے اہم عہدوں سے نوازا۔ مذہبی آزادی دی۔ مملکت کے اُمور میں ہندو مسلم تفریق آنے نہیں دیا۔ حتیٰ کہ راجپوت عورتوں سے نکاح کیا۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ کو لے کر ہندو عوام میں زبردست غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں اور حقیقی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ معصوم عوام کے ذہنوں کو مسموم کیا گیا۔ انگریزوں نے ہندو مسلم عوام میں پھوٹ ڈال کر حکومت کی جس کے لئے مسلم حکمرانوں خاص کر اورنگ زیب کی شبیہہ کو بگاڑنے کا کام کیا۔ اسی طرح فرقہ پرست طاقتوں نے ہندو عوام کو نفرت و تعصب کی بنیاد پر متحد کیا اور اس کے لئے اورنگ زیب سے متعلق جھوٹے فسانے پھیلائے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ جبکہ ستیش چندر، بی این پانڈے، عرفان حبیب، اوم پرکاش پرساد وغیرہ مؤرخین نے اورنگ زیب کو امن و امان کا علمبردار، انصاف پسند اور رعایا پرور حکمراں کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان مؤرخین نے اورنگ زیب کے دور حکومت کی تفصیلات کو بلا تعصب پیش کیا ہے۔ اورنگ زیب نے ہندو مسلم اتحاد کو برقرار رکھا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی۔ رعایا کے ساتھ برابری کا سلوک روا رکھا۔ مذہب کی بنیاد پر کسی تفریق کو پیدا ہونے نہیں دیا۔ ایک بار دشمنوں نے ستارہ کے قلعہ پر حملہ کیا لیکن شکست کھاگئے۔ تیرہ حملہ آور جن میں ہندو اور مسلمان بھی تھے پکڑے گئے۔ گرفتار شدگان کے متعلق قاضی سے رائے لی گئی۔ قاضی نے فیصلہ دیا کہ ہندوؤں کو مسلمان بنادیا جائے اور مسلم قیدیوں کو تین سال کی قید کی سزا دی جائے۔ اورنگ زیب نے اس فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور قاضی اور مفتیوں کو دوبارہ غور و فکر کے بعد فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔ بعدازاں تمام قیدیوں کے لئے یکساں سزا کا فیصلہ سنایا گیا۔ جنوبی ہند کے ایک افسر میر حسن نے اورنگ زیب کو خط لکھا کہ ’’اسلام پوری‘‘ کا قلعہ کمزور ہے اور آپ وہاں پہنچنے والے ہیں، قلعہ مرمت چاہتا ہے، اس سلسلہ میں آپ کا کیا حکم ہے؟ اورنگ زیب نے جواب دیا ’’اسلام پوری‘‘ کا لفظ لکھ کر تم نے اچھا نہیں کیا، اس کا پرانا نام ’’برہم پوری‘‘ تھا، تمہیں اس کا استعمال کرنا چاہئے اور کہا، جسم کا قلعہ تو اس سے بھی کمزور ہے اس کا کیا علاج ہے‘‘۔ اورنگ زیب مذہبی عصبیت کے کٹر مخالف تھے۔ چنانچہ مراٹھوں پر فتح کے بعد محرم خان نامی سپہ سالار نے غیر مسلم عہدیداروں کو دشمن اور اعتماد شکن بتاتے ہوئے ان کو اعلیٰ عہدوں سے ہٹانے کی درخواست کی۔ اورنگ زیب نے جواب دیا ’’مذہب کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہمارا مذہب ہمارے لیے اور اُن کا مذہب اُن کے لئے‘‘۔ اورنگ زیب کے متعلق یہ بہتان لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہندوؤں پر ظلم ڈھائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب نے بڑے پیمانے پر مندروں، مٹھوں اور گرجا گھروں کو جاگیریں اور وظائف منظور کئے۔ الہ آباد میں واقع سومیشور ناتھ مہا دیوا کا مندر، گوہاٹی میں موجود اومانند کا مندر، چترکوٹ کا بالاجی مندر کے علاوہ شمالی ہند میں واقع بے شمار مندروں کو جاگیریں عطا کیں۔ اورنگ زیب پر مندروں کو توڑ کر مساجد بنانے کا الزام ہے جبکہ اسلام خود بھی اجازت نہیں دیتا، بھلا ایک راسخ العقیدہ حکمراں احکام اسلام کی کیسے خلاف ورزی کرسکتا ہے؟
ان تاریخی حقائق اور واقعات کی موجودگی کے باوجود متعصب، فرقہ پرست عناصر نے اپنی مسلم دشمنی اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کے چلتے تاریخ کو مسخ اور توڑ مروڑ کر پیش کیا تاکہ یہاں کی اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرسکیں اور ’’ہندوتوا‘‘ ایجنڈہ کو لاگو کرسکیں۔ تفرقہ پسند طاقتوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ نسل نو کے معصوم ذہنوں کو مسموم کرسکیں اور مسلم حکمرانوں کے دور کو ظلم و جبر کے دور سے تعبیر کرسکیں اور عوام کے ذہنوں میں نفرت، تعصب اور فرقہ پرستی کے بیج بوسکیں۔ ملک کی تعلیم گاہوں میں جب مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہاں سے فارغ ہونے والے طلباء کے اندر نفرت، تعصب اور انتقام کے جذبات پروان چڑھیں گے۔ ملک میں اِن دنوں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت، عداوت اور ظلم و زیادتی نظر آرہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ ماب لنچنگ جیسی گھناؤنی حرکت بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ جب تک تعلیمی اداروں میں حقیقی تاریخ روشناس نہیں کرائی جائے گی نفرت و تعصب اور فرقہ پرستی کے طوفان کو قابو میں لانا انتہائی دشوار ہے۔
لیکن وائے ناکامی مسلم ملت اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی خواب غفلت کا شکار ہے۔ لگتا ہے موجودہ حالات سے کسی کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مساجد، مدارس، مسلم پرسنل لا کے قوانین یا پھر وقف پر جب ضرب پڑتی ہے تو نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ زور و شور سے احتجاج کرتے ہیں، پھر وہی غفلت کی نیند میں کھو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکمرانوں کی سنہری تاریخ کی حفاظت کی جائے۔ فرقہ پرست اور متعصب مؤرخین سے فضاء کو مسموم اور آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔ آخر کب تک کشمکش اور تناؤ کی کیفیت میں مسلم قوم زندہ رہے گی؟ نئی نسل کی صلاحیتوں، سوچ و فکر اور ان کے مستقبل سے کب تک کھلواڑ ہوتا رہے گا؟
ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں محققین، مؤرخین، دانشور اور مفکرین کی کمی ہے۔ ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ وہ گوشۂ عافیت سے باہر نکلیں، حالات کی نبض پہچانیں اور اپنی علمی و ملی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔ (1) اولاً تعلیم گاہوں سے مسموم اور نفرت و تعصب پر مبنی تاریخی مواد کو تبدیل کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی جانی چاہئے۔ (2) مسلم حکمرانوں کے دور حکومت کی تاریخ کو نام بہ نام ہندی، انگریزی و دیگر علاقائی زبانوں میں شائع کیا جائے اور وسیع پیمانے پر برادران وطن تک پہنچایا جائے۔ (3) وقفہ وقفہ سے ملک بھر میں مسلم حکمرانوں کے طرز حکمرانی، رواداری بالخصوص ہندو عوام کے تئیں ان کے حسن سلوک کو لے کر بڑے پیمانے پر سمینار رکھے جائیں جس میں خاص طور پر ہندو مؤرخین اور دانشور اصحاب کو بھی دعوت دی جائے۔ (4) جب بھی کسی مسلم حکمراں پر فرقہ پرستوں کی طرف سے اُنگلی اُٹھے یا اعتراض آئے تو میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس کی وضاحت یا جواب کا بھرپور انتظام کیا جائے۔ (5) ملت میں ایسے نوجوانوں کو تیار کیا جائے جو علم و فضل بالخصوص تاریخ اور دیگر ادیان پر عبور حاصل کریں اور فرقہ پرست عناصر کے الزامات کی وضاحت کرسکیں۔ ملت کے لئے یہ امر ایک سانحہ سے کم نہیں کہ ملت کے مایہ ناز سپوت بھی دنیا و متاع دنیا کے اسیر بننے کے لئے مسابقت کررہے ہیں، نہ انہیں درپیش سخت حالات اور چیالنجس سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی انہیں ملی ذمہ داریوں کا شعور ہے۔ ایسے میں ملت کے اہل دانش، دردمند اصحاب اور مختلف اداروں، انجمنوں اور جماعتوں کے سربراہوں کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ گذارشات پر عمل درآمد کے لئے ایک منصوبہ بند اور مبسوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔
مذہب ، زباں ، رنگ ، علاقے اور ذات پات
یہ کیسی آگ ہے جسے بھڑکا رہے ہیں لوگ