مسلم خواتین طلاق کیلئے صرف فیملی کورٹ سے رجوع ہوں

   

نئی دہلی : شریعت کونسل نہ تو عدالتیں ہیں اور نہ ہی ثالث شادی کو منسوخ کرنے کے مجاز ہیں ۔ اس لئے جو عورت قانونی طلاق لینا چاہتی ہے اسے فیملی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیئے ۔ یہ مشورہ مدراس ہائیکورٹ نے ایک کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے کیا ہے ۔عدالت نے قرار دیا کہ پرائیوٹ ادارو ں کی جانب سے جاری کردہ خلع سرٹیفیکٹ قانون میں مدراس ہائیکورٹ ایک کیس کی سماعت کررہی تھیجس میں سال 2017 میں ٹاملناڈو توحید کونسل کی طرف سے ایک شخص کو طلاق کا سرٹیفیکٹ دیا تھا ۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ اگرچہ مسلم پرسنل لاء قانون کے تحت تسلیم شدہ خلع کے ذریعہ ایک مسلم خاتون طلاق حاصل کرنے کے اپنے حق کا استعمال کرسکتی ہے لیکن یہ صرف فیملی کورٹ کے ذریعہ کیا جائے ۔ جج نے یہ ہدایت ایک شخص کی درخواست کی سماعت کے دوران جاری کی جس میں عدالت سے 2017 میں شریعت سے حاصل کردہ خلع سرٹیفیکٹ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ درخواست گزار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شریعت کونسل جو ٹاملناڈو سوسائٹیز ایکٹ 1975کے تحت اس طرح کے سرٹیفیکٹ جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس نے ازدواجی حقوق کی بحالی کیلئے ایک پٹیشن دائر کی تھی اور فریقیحکم نامہ بھی حاصل کیا تھا ۔ عدالت نے درخواست گزار اور شریعت کونسل کو سنا کیونکہ درخواست گزار کی اہلیہ نے غیر حاضر رہنے کا انتخاب وہ ذاتی طور پر یا وکیل کے ذریعہ حاضر کے تحت صرف ایک عدالتیف ورم کو شادی کو تحلیل (b) جج نے مزید کہاکہ فیملی کورٹس ایکٹ 1984 کے تحت حکم نامہ پاس کرنے کا اختیار جسٹس شیوارامن نے یہ بھی کہا کہ مدراس ہائیکورٹ نے بدر سعید بمقاملہ یونین آف انڈیا 2017 کیسم یں قاضیوں کو سرٹیفیکٹس جاری کرنے سے روکا ۔