اترپردیش میں پولیس کی درندگی
مسلم خواتین کو عصمت ریزی کی دھمکی ، نوجوانوں پر ظلم
گھروں میں توڑ پھوڑ ، قانون کے رکھوالوں پر نقد رقم چھین لینے کا الزام
حیدرآباد ۔ 24 ۔ دسمبر : ( سیاست ڈاٹ کام ) : این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سارے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ساتھ ہی پولیس کی درندگی بھی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ پرامن احتجاجیوں پر جان لیوا حملوں کے لیے دہلی اور اترپردیش پولیس ساری دنیا میں بدنام ہوگئی اور اس کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ سارے ملک میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں تاحال 24 افراد مارے گئے جن میں سے اترپردیش میں ہی 17 لوگ جاق بحق ہوگئے ہیں ۔ زخمیوں کی تعداد درجنوں تک پہنچ گئی ہے ۔ اترپردیش پولیس بڑی بے شرمی سے یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے ایک گولی نہیں چلائی جب کہ عوام اور سماجی جہدکاروں سے لے کر غیر جانبدار میڈیا کا دعویٰ ہے کہ کم از کم 14 افراد گولیاں لگنے سے جاں بحق ہوئے ۔ پولیس کے ظلم و جبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس نے فالج سے متاثرہ ضعیف شخص اور بستر علالت پر پڑے افراد کو بھی نہیں بخشا ۔ اترپردیش کے ضلع بجنور کے علاقہ نائندہ سرائے میں پولیس نے تو حد کردی ۔ اسکرال کے مطابق مقامی عوام نے بتایا کہ پولیس نے انتہائی درندگی کا مظاہرہ کیا ۔ اس علاقہ کی ایک خاتون نے بتایا کہ پولیس نے زبردستی اس کے گھر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ مچائی اور نوجوانوں کو گرفتار کرلیا ۔ ایسا ہی ایک شخص محمد حسین ہے جن کی بیوی نے روتے ہوئے بتایا کہ پولیس ان کے گھر میں داخل ہوئی اور شوہر کو لے کر چلی گئی ۔ ایک اور خاتون اور اس کی ماں کا الزام ہے کہ پولیس ان کے گھر میں داخل ہوئی واش بیسن سینک کو تور دیا ، کچن میں توڑ پھوڑ کی ، ٹی وی کو پٹخ دیا ۔ سیلنگ فیان کو موڑ دیا اور 50 ہزار روپئے نقد چھین کر لے گئے ۔ یہ رقم مکان کی تزئین نو کے لیے جمع کئے تھے ۔ 60 سالہ محمودہ خاتون کے مطابق وہ ہاتھ جوڑے پولیس سے التجائیں کرتی رہی ۔ ایک اور خاتون نے تو پولیس کے پیر پکڑ لیے لیکن ظلم نہیں روکا گیا ۔ اسکرال میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک خاتون نے بتایا کہ پولیس والے زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئے کوکنگ گیس سیلنڈر کا پائپ کاٹ دیا ۔ گھر کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی اور چیخنا چلانا بند نہ کرنے پر عصمت ریزی کی یہ کہتے ہوئے دھمکی دی کہ خاموش نہ رہوگے تو عزت اتاردیں گے ۔ ان خواتین نے بتایا کہ پولیس نے ان کے علیل بھائی قمر احمد کو گرفتار کر کے لے گئی ۔ اس علاقہ کے اکثر خاندان اپنے مرد ارکان کے بارے میں فکر مند ہیں ۔ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے 21 سالہ انیس احمد کے والد ارشد حسین نے بتایا کہ وہ اپنے 7 ماہ کے شیرخوار کے لیے دودھ لینے جارہا تھا کہ اسے گولی مار دی ۔ بجنور کے ایک تاجر کے مطابق جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس تشدد کے بارے میں ساری دنیا واقف ہے لیکن ہم پر جو تشدد کیا جارہا ہے دنیا تک ہماری حالت زار کے بارے میں کوئی خبر نہیں پہنچ پا رہی ہے ۔ نہتار علاقہ میں یہ سب کچھ ہوا ۔ ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ اس علاقہ میں شہادت بابری مسجد کے وقت بھی تشدد نہیں ہوا لیکن ایک ایسا شخص جو خود ہی مسلمانوں کیخلاف تشدد میں ملوث رہا اس کی چیف منسٹری میں کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ دوسری جانب واراناسی میں ایک 11 سالہ لڑکا صغیر احمد بھی پولیس کے لاٹھی چارج میں زخمی ہو کر شہید ہوگیا ۔ صغیر کی دادی اماں صدمہ سے دوچار ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا پوتا نماز جمعہ کے لیے مسجد گیا تھا ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اسے آخری بار دیکھ رہے ہیں ۔۔