کمرے میں موجود ہونا چاہئے : قیدی کا چیلنج
اتمور۔ 8 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) الباما میں ایک مسلم قیدی نے محکمہ پریزنس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے تاہم اسے شاید اپنے قانونی چیلنج کا نتیجہ دیکھنے کا موقع نہیں ملے گا کیونکہ اسے جمعرات کے روز سزائے موت دیدی گئی ۔ مسلم قیدی 42 سالہ ڈومنیک رے کو رات 10:12 بجے ڈاکٹروں نے زہر کے انجکشن کے ذریعہ سزائے موت دیئے جانے کے بعد مردہ قرار دیا۔ ملزم یہ چاہتا تھا کہ سزائے موت دینے جانے والے کمرے میں اس کے آخری وقت کوئی دینی عالم بھی موجود رہے۔ رے نے البامہ میں سزائے موت دیئے جانے کے چلن کو چیلنج کیا تھا جیسے اگر کسی عیسائی قیدی کو سزائے موت دی جاتی ہے تو سزائے موت کے کمرے میں عیسائی پادری بھی موجود ہوتا ہے جو دراصل محکمہ محابس کا ہی ملازم ہوتا ہے تاہم جب کسی مسلم قیدی کو سزائے موت دی جاتی ہے تو وہاں کسی بھی اسلامی دینی رہنما کی موجودگی کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اس سلسلہ میں اٹارنیز کا استدلال ہیکہ سزائے موت پر عمل آوری کے وقت چیمبر (کمرے) میں صرف جیل کے ملازمین کو اندر رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ رے کے امام صاحب نے سزائے موت کا منظر متصلہ کمرے سے دیکھا جبکہ وہ گذشتہ دو روز سے اس سے ملاقات کیلئے آرہے تھے۔ بہرحال رے کو جس وقت سزائے موت دی جانے والی تھی اور اس سے آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے عربی زبان میں قرآنی آیات کا ورد کیا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔