٭ تعلیمیافتہ ملٹی نیشنل اور دیگر اداروں میں کام کرنے والی زیادہ تر مسلم لڑکیاں گمراہی کاشکار
٭ مسلم لڑکیوں کے ارتداد کیلئے کون ذمہ دار، والدین، علماء و مشائخین یا پھر مسلم نوجوان؟
محمد نعیم وجاہت
حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف کے دفاتر رجسٹرار میں آج کل ایک ایسا رجحان دیکھا جارہا ہے جو ساری ملت کیلئے لمحہ فکر یہ ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیاں کررہی ہیں۔ ویسے بھی مسلم نوجوانوں پر لو جہاد کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں قانونی شکلنجہ میں غیر قانونی طور پر سازشوں کے تحت پھنسایا جارہا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ کافی وائرل ہوا ہے۔ سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے وائرل ویڈیو میں اس نے مسلم لڑکیوں کو ہندو لڑکوں سے شادی کرنے کے درجنوں فوائد بتائی ہیں۔ ہم نے پہلے وائرل پوسٹ کی جو بات کی ہے اس میں باضابطہ طور پر اقلیت دشمن طاقتیں ہندو نوجوانوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ کیسے مسلم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسایا جائے اور پھر انہیں ارتداد کا شکار بناکر شادیاں رچائی جائیں۔ دفاتر رجسٹرار میں بین مذہبی شادیوں کے رجسٹریشن کی تو یہ تلخ حقیقت ہے۔ کافی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کررہی ہیں حالانکہ اس طرح کی شادیاں کرنے اور مرتد ہونے والی کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں۔ ان لوگوں نے خود اپنی تباہی و بربادی کی المناک کہانیاں سنائی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو لڑکیاں مرتد ہوکر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کررہی ہیں وہ تمام انتہائی اعلی تعلیمیافتہ ہیں اور ملٹی نیشنلک مپنیوں اور بڑے اداروں میں ملازمتیں کرنے والی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے ارتداد اور پھر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے کیلئے کون ذمہ دار ہیں؟ کیا اس کیلئے ان کے اپنے والدین سرپرست اور رشتہ دار ذمہ دار ہیں یا علماء و مشائخین یا پھر مسلم نوجوان ذمہ دار ہیں جو جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں یا اس کی امید رکھتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو مسلم لڑکیوں کے ارتداد اور غیر مسلموں کے ساتھ شادیوں کیلئے ماں باپ سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں اگر والدین اپنی لڑکیوں کی بہتر انداز میں تربیت کرنے انہیں علم دین سکھاتے شرم و حیا کا انہیں پیکر بناتے بے شرمی بے حیائی کے بھیانک نتائج سے انہیں واقف کراتے اور وقت پر ان کی شادیاں کرواتے تو انہیں معاشرے میں بدنامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔ اس خطرناک رجحان کیلئے اصلاح معاشرہ کی مہم چلانے والے علماء و مشائخین، مذہبی تنظیمیں اور دوسرے ادارے بھی ذمہ دار ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں بشمول بجرنگ دل، وشواہندو پریشد کے نمائندے پابندی سے دفاتر رجسٹرار کے چکر لگاتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کوئی ہندو لڑکی مسلم لڑکے سے شادی تو نہیں کررہی ہے۔ اس کے برعکس مسلم تنظیموں کے نمائندے دفاتر رجسٹرار کے اگر اتفاق سے چکر لگاتے ہیں انہیں مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرانے کی اطلاعات بھی ملتی ہیں تو وہ لڑکیوں کے والدین رشتہ داروں تک پہنچ کونسلنگ کرنے کی کوشش نہیں کرتے اس طرح کے واقعات کے پوسٹ سوشل میڈیا پر پھیلاکر خاموش ہوجاتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ جذبات میں بہہ کر یا گمراہی کا شکار ہوکر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے والی کئی لڑکیاں سڑکوں پر آگئی ہیں اور اعتراف کیا کہ ان کا شوہر انہیں اپنے دوستوں کے بھی حوالے کررہا تھا۔ ایسی کہانیوں کی تحقیقات بھی ضروری ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بے شمار مسلم لڑکیاں فی الوقت غیر مسلم بوائے فرینڈ یا عاشقوں سے شادیاں کر رہی ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سیرت کی بجائے صورت اور مال کو ترجیح دیتے ہوئے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے وہ لڑکیاں اور ان کے والدین اور ہمارے معاشرہ ذمہ دار ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو معاشرہ اپنے دین سے دور ہوجاتا ہے اس میں غیرت باقی نہیں رہتی۔ بہنوں کو ارتداد کے بدترین گناہ سے بچانا ہوگا اور یہ کام صرف دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر کیا جاسکتا ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ مسئلہ کسی ایک گھر تک محدود ہے بلکہ اس طرح کے واقعات سے اجتماعی مسئلہ کے طور پر نمٹنا چاہئے۔