مسلم لیڈر کو امکانی شکست سے بچانے ریونت ریڈی خود میدان میں کود پڑے

   

Ferty9 Clinic

کاما ریڈی سے مقابلہ صدر پردیش کانگریس کا جراتمندانہ فیصلہ ۔ سکیولر ہونے پر سوال کرنے والوں کو عملی جواب

حیدرآباد 8 نومبر ( سیاست نیوز ) تلنگانہ اسمبلی انتخابات کیلئے سرگرمیاں تیز ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اب جبکہ پرچہ نامزدگیوں کے ادخال کیلئے محض دو دن باقی رہ گئے ہیں انتخابی مہم پر تمام سیاسی قائدین اور جماعتوں نے توجہ مرکوز کرلی ہے ۔ تمام جماعتوں کے قائدین انتخابی مہم کیلئے میدان میں آگئے ہیںاور ایک دوسرے پر تنقیدیں کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر و صدر بھارت راشٹرا سمیتی کے چندر شیکھر راؤ نے گجویل کے علاوہ کاما ریڈی حلقہ سے بھی مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ گجویل کے سی آر کا روایتی حلقہ ہے جبکہ کاماریڈی سے کانگریس لیڈر محمد علی شبیر مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس بار کے سی آر نے کاماریڈی سے بھی مقابلہ کا اعلان کیا ہے اور وہ جمعرات کو اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے والے ہیں۔ جس وقت سے کے سی آر نے یہ اعلان کیا ہے کاما ریڈی حلقہ توجہ کا مرکز بن گیا تھا ۔ عوام میں ایک تاثر یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کے سی آر نے ایک مسلم امیدوار کو شکست دینے کاماریڈی سے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ محمد علی شبیر سے عوامی سطح پر ہمدردی بھی دیکھی جا رہی تھی۔ تاہم کانگریس نے محمد علی شبیر کو کاما ریڈی سے مقابلہ سے روک دیا اور انہیں نظام آباد اربن سے امیدوار نامزد کردیا ہے ۔ کاما ریڈی سے مقابلہ کا خود صدر پردیش کانگریس اے ریونت ریڈی نے فیصلہ کیا ہے اور وہ اپنی روایتی نشست کوڑنگل کے ساتھ کاما ریڈی سے بھی مقابلہ کریں گے ۔ ریونت ریڈی کا یہ فیصلہ ان کی سیاسی جراء ت اور حوصلہ مندی کی علامت کہا جا رہا ہے ۔ جہاں کئی قائدین ایسے ہیں جو کسی طاقتور امیدوار کے خلاف مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں اور ممکنہ حد تک اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کے سی آر کے خلاف ریونت ریڈی نے تال ٹھوک دی ہے اور خود مقابلہ کیلئے میدان میں اتر رہے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی جراء ت ہے ۔ اس کے علاوہ اس فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ریونت ریڈی نے پارٹی کے ایک سینئر اور معروف مسلم چہرے محمد علی شبیر کو امکانی شکست سے بچانے کیلئے انہیںمتصل حلقہ کو منتقل کردیا اور خود کے سی آر کا سامنا کرنے کیلئے میدان میں اتر پڑے ہیں۔ کانگریس کے مسلم حلقوں میں اس فیصلے کی ستائش تو ہو ہی رہی ہے لیکن ریاست کے مسلم ووٹرس اور عوام میں بھی یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ جس ریونت ریڈی پر مخالفین بی جے پی یا آر ایس ایس سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کر رہے ہیں وہی ریونت ریڈی پارٹی کے ایک سینئر مسلم لیڈر کے سیاسی کیرئیر کو مستحکم کرنے کیلئے خود مقابلہ کرنے کیلئے آگے آئے ہیں۔ ریاست کے عوام کو اس تعلق سے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ عوام میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ مسلمانوں کے ہمدرد اور سکیولر کہلائے جانے والے کے چندر شیکھر راؤ نے دوسرے حلقہ سے مقابلہ کا فیصلہ کرتے ہوئے گوشہ محل حلقہ کا انتخاب نہیں کیا تاکہ مسلم دشمنی کیلئے شہرت رکھنے والے راجہ سنگھ کو شکست دی جاسکے بلکہ انہوں نے ایک مسلم اور سکیولر امیدوار کو شکست دینے کیلئے کاما ریڈی حلقہ کا انتخاب کیا ہے ۔ عوامی حلقوں میں یہ تقابل کیا جا رہا ہے اور لوگ یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ جس کے سکیولر ازم پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اس ریونت ریڈی نے تو ایک مسلم قائد کو بچانے کیلئے خود مقابلہ کا فیصلہ کرلیا اور جس کے سکیولر ازم کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور جس کی ہمنوائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے وہ کے سی آر ایک مسلم لیڈر کو شکست دینے میدان میں اترے ہیں ۔