مسلم مجاہدین کے نام مٹانے بی جے پی کا پروگرام

   

رام پنیانی
چیف منسٹر ہریانہ ایم ایل کھتر کا حال ہی میں ایک بیان منظر عام پر آیا ہے جس کے مطابق حکومت ہریانہ نے فریدآباد میں واقع خان عبدالغفار خان اسپتال کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے اٹل بہاری واجپائی کا نام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تک ہم نے موجودہ حکمراں نظم و نسق کی جانب سے ناموں کی تبدیلی کا مشاہدہ ہی کیا ہے۔
زیادہ تر ان سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں جو مسلم حکمرانوں سے موسوم ہیں۔ مثال کے طور پر اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرکے اسے اے پی جے عبدالکلام روڈ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح الہ آباد کا نام پریاگ راج رکھ دیا گیا۔ مغل سرائے کا نام تبدیل کرکے اسے اب پنڈت دین دیال اپادھیائے کا نام دیا گیا ہے۔ فیض آباد کو ایودھیا قرار دیا گیا ۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے حالیہ انتخابات میں چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کا نام بھی تبدیل کرکے اسے بھاگیہ نگر کردینا چاہئے۔ شیوسینا جو بی جے پی کی ایک طویل عرصہ تک حلیف رہی ہے، اورنگ آباد، احمد نگر اور پونہ جیسے شہروں کے نام تبدیل کرنے کی باتیں کررہی ہے۔ جہاں تک شیوسینا کا سوال ہے وہ انتخابی فوائد کیلئے مسلم حکمرانوں سے موسوم شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے بہت دیر سے بیدار ہوئی جبکہ بی جے پی یہ کھیل رسوں سے کھیل رہی ہے اور ہلچل مچا رہی ہے۔ مسلم بادشاہوں کے خلاف یہ طاقتیں جان بوجھ کر ایک بہت بڑا پروپگنڈا کررہی ہیں کہ ان بادشاہوں نے مندروں کو مسمار کیا لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا اور ہندو خواتین کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ اس پروپگنڈہ کے ذریعہ موجودہ مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
حکومت ہریانہ نے جو کچھ اس مرتبہ کیا ہے، وہ مختلف کیوں ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔ حکومت کسی مسلم بادشاہ کا نام تبدیل نہیں کررہی ہے بلکہ وہ ہندوستان کے ایک عظیم قوم پرست کا نام تبدیل کررہی ہے جو انگریز حکمرانی کے خلاف چٹان کی طرح کھڑے رہے جنہوں نے مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی شدت سے مخالفت کی اور جو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے کٹر حامی اور شیداء تھے، ہماری مراد خان عبدالغفار خان سے ہے جہنیں پیار سے بادشاہ خان یا باچا خان بھی کہا جاتا ہے اور ساری دنیا میں وہ سرحدی گاندھی کے نام سے بھی مشہور ہیں اور ان کی شہرت آج بھی برقرار ہے۔

خان عبدالغفار خان شمال مغربی صوبہ سرحد کے ایک قدآور لیڈر تھے جنہیں مخالف انگریز سرگرمیوں کی بنیاد پر جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور پھر بعد میں مشترکہ جمہوری اقدار سے متعلق ان کے موقف کیلئے پاکستانی حکام نے انہیں جیل میں بند کردیا۔ یہ وہی خان عبدالغفار خان ہیں جنہوں نے خدائی خدمت گار جیسی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس تنظیم نے ملک و قوم کیلئے کام کرنے کا اور انگریزوں کی حکومت کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ عدم تشدد کی راہ اپنانے کا عہد کیا۔ وہ اور ان کی تنظیم نے ہمیشہ امن و سلامتی اور دوستی کیلئے کام کیا۔ انگریزوں کی حکومت کے خلاف خدائی خدمت گاروں کا احتجاج اور مزاحمت ہمیں قصہ خوانی بازار میں دکھائی دی۔ یہ واقعہ 1930ء کے دوران پشاور میں اس وقت پیش آیا جب انگریزوں کی مسلح گاڑیوں نے احتجاجی مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کردی حالانکہ یہ خدائی خدمت گار پرامن انداز میں احتجاج کررہے تھے۔
خان عبدالغفار خان وہ شخص تھے، جو ملک کی تقسیم سے متعلق نظریہ اور تصور کے سخت مخالف تھے چنانچہ جب کانگریس قیادت نے بادل نخواستہ تقسیم کے نظریہ کو قبول کیا اور شمال مغربی صوبہ سرحد پاکستان کا حصہ بنا اس وقت خان عبدالغفار نے کانگریس قیادت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ہمیں بھیڑیوں میں پھینک دیا۔ ملک کی تقسیم کے بعد خان عبدالغفار خان کے بے شمار حامیوں نے فریدآباد ہجرت کی اور اپنے محبوب قائد کے نام سے ایک اسپتال تعمیر کروایا۔ ان کے کئی ایسے حامی ہیں جو ہنوز بقید حیات ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں اٹل بہاری واجپائی کے نام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کیلئے ایک نیا اسپتال تعمیر کرکے اسے اٹل بہاری واجپائی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خان عبدالغفار خان ہندوستان کے ایک عظیم مجاہد آزادی تھے اور جو اپنی آخری سانس تک اپنے اُصولوں پر قائم رہے۔
موجودہ حکمران طبقہ جو ہندوستان کی تحریک آزادی کا حصہ نہیں تھا۔ دراصل ہندوستان کی تعمیر میں اسلام اور مسلمانوں کے جو انمٹ نقوش پائے جاتے ہیں، اسے مٹانا چاہتا ہے۔ بی جے پی نے قرون وسطیٰ کے مسلم بادشاہوں کو ظالم و جابر کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور اب وہ ان مسلمانوں کے نام صفحہ ہستی سے مٹانے کی جانب متوجہ ہورہی ہے جنہوں نے ملک کی جدوجہد آزادی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ دراصل یہ طاقتیں یہ جھوٹ پھیلا رہی ہیں کہ مسلمان علیحدگی پسند تھے، اسی لئے ان لوگوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا۔ اس طرح کی غلط باتیں یقینا جدوجہد آزادی کی تاریخ کو مکمل طور پر مسخ کرکے پیش کرنا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ جس کی جڑیں نوابوں اور جاگرداروں میں پیوست تھیں، ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ نہیں تھی۔

ہاں مسلم لیگ متوسط طبقہ کے بعض عناصر کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہی لیکن مسلمانوں کی ایک اکثریت نے اس کی کبھی تائید نہیں کی، صرف اشرافیہ جائیدادوں کے مالکین اور ڈگری ہولڈرس جنہیں حق رائے دہی حاصل تھا، مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے رہے جبکہ اوسطاً مسلمان تحریک آزادی کے ساتھ تھے۔ بے شک مسلم لیگ نے سندھ اور بنگال میں ہندو مہا سبھا کے تعاون و اشتراک سے وزارتیں بنانے میں کامیابی حاصل کی اوسطاً مسلمانوں نے اس کی علیحدگی پسند سیاست سے خود کو دور رکھا۔

یہاں یہ نکتہ ہے کہ جناح کو ایک مسلم لیڈر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ ایسے بھی کئی مسلم رہنما تھے جو قومی تحریکوں کا حصہ رہے یا اپنی تنظیموں کے ذریعہ فرقہ پرستوں کی علیحدگی پسندی کی سیاست کی مخالفت کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کی تائید و حمایت کی۔ ان لوگوں نے ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر پیش کئے گئے دو قومی نظریہ کی تائید و حمایت کرنے والے فرقہ پرستوں کی مخالفت کو اپنا وطیرہ بنایا۔
شمس الاسلام نے اپنی انگریزی کتاب ’’ہندوستان کی تقسیم کے مخالف مسلمان‘‘ میں بہت ہی خوبصورت انداز میں ملک کی تقسیم کے ضمن میں مسلمانوں کی جانب سے کی گئی مخالفت کو پیش کیا۔ انہوں نے ان مسلمانوں کو اپنے ملک و قوم سے محبت کرنے والے مسلمان قرار دیا۔
جناح کی قراردادِ پاکستان کے جواب میں اللہ بخش نے جو صوبہ ہند کے دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے تھے، نہ صرف 1942ء کی ’’ہندوستان چھوڑدو تحریک‘‘ کی تائید میں اپنا خطاب واپس کردیا بلکہ انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے مطالبہ کی مخالفت کیلئے ’’آزاد مسلم کانفرنس‘‘ کا قیام عمل میں لایا اور اس کے بیانر تلے کانفرنس کا اہتمام کرتے ہوئے تقسیم کی مخالفت کی اہم بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے متوسط طبقات نے اس کانفرنس کی بھرپور تائید کی۔ اللہ بخش نے اپنی تقریر میں پرزور انداز میں کہا تھا کہ ہمارے مذاہب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں ایک مشترکہ خاندان کی طرح رہنا ہوگا اور اپنے ارکان خاندان کی مختلف رائے کا احترام کرتے ہوئے زندگی گذارنی ہوگی۔
ایسے کئی اہم قائدین ہیں جن کا مسلمانوں پر اچھا اثر تھا اور جو ہندو۔ مسلم اتحاد کے کٹر حامی تھے۔ شبلی نعمانی، مولانا حسرت موہانی، اشفاق اللہ خاں، مختار احمد انصاری، شوکت انصاری،، عبداللہ بریلوی، عبدالعزیز خواجہ وغیرہ ایسے ہی قائدین تھے جو زندگی بھر ہندو۔ مسلم اتحاد کے حامی رہے۔
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزا ایک قدآور لیڈر تھے جنہوں نے کانگریس کی متعدد مرتبہ قیادت کی۔ 1942ء میں کانگریس نے ان ہی کی قیادت میں ’’ہندوستان چھوڑدو تحریک‘‘ شروع کی۔ انگریزوں کے خلاف اس عظیم مہم کو بے شمار مسلم تنظیموں و جماعتوں بشمول جمعیتہ العلمائے ہند، مومن کانفرنس، مجلس احرار اسلام، اہلحدیث، بریلوی اور دیوبندی علمائے کرام کی تائید حاصل رہی۔ ان جماعتوں اور علمانے قومی تحریک کی مکمل تائید کی جبکہ مسلم لیگ ان قوم پرست مسلمانوں کے مکمل خلاف تھی۔ بہرحال باچا خان کی یاد میں تعمیر کردہ اسپتال کا مقام تبدیل کرنے سے حکمراں بی جے پی کے خطرناک ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔ حکمراں جماعت مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں اور ان کے ناقابل فراموش رول کو مٹانا چاہتی ہے۔ حالانکہ ان لوگوں نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔