قرآنی تعلیمات سے دوری مسلمانوں کے مسائل کی اہم وجہ۔۔ ملیشین ویلفیر آرگنائزیشن کے اجلاس سے مہاتر محمد کا خطاب
کوالالمپور۔/30 نومبر، ( سیاست ڈاٹ کام )ملیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتر محمد نے کہا کہ مسلم ممالک کے پاس دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مسابقت کی طاقت اور صلاحیت موجود ہے لیکن وہ ایسا کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کمزور سمجھے جاتے اور دیگر ممالک کی جانب سے ان پر کنٹرول کیا جاتا اور انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔ دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد 52 ہے لیکن ان میں ایک بھی ملک ترقی یافتہ نہیں کہا جاتا۔ کیا یہ مذہبی پابند ی کی وجہ سے ہے کہ مسلمان ترقی نہیں کرتے؟ یا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام کو ماننے والے ترقی نہیں کرتے یا انہیں ترقی کرنے نہیں دیا جاتا ؟ ۔ مہاتر محمد نے وضاحت کی کہ مسلم ممالک مسابقت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے ضمن میں مسلمان بیرونی افراد کے مساوی ہیں لیکن مسلمان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں اور صلاحیتوں کو مناسب طور پر بروئے کار نہیںلاتے۔ انہوں نے کہا کہ ان صلاحیتوں کا اس انداز سے استعمال کریں جس سے مذہب اسلام کا تحفظ کیا جاسکے۔ مہاتر محمد نے ملیشین مسلم ویلفیر آرگنائزیشن کے 58 ویں سالانہ عام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی کوریا کی مثال پیش کی اور بتایا کہ سابق میں جنوبی کوریا انتظامی ترقی میں ملیشیاء سے پیچھے تھا لیکن اب وہ بہت آگے ہے اور اس کی فی کس آمدنی ملیشیاء سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں خاص طور پر صنعتوں کی ترقی جس کی بناء پر اس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ ملیشیا کا کوریا اور دوسرے اسلامی ممالک سے تقابل کرتے ہیں تو انہیں بہت مایوسی ہوتی ہے، اس لئے نہیں کہ مسلم ممالک کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں کوریا اور دیگر ممالک کی طرح مسلم ممالک ترقی حاصل نہیں کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ غلطیاں مذہب سے جڑی ہوئی نہیں ہیں۔ مذہب دولت کے حصول سے نہیں روکتا اگر ہم وہ جائز طریقہ سے حاصل کررہے ہیں اور ہم کو اس دولت کا استعمال کمزوروں کی مدد کے لئے کرنا چاہیئے، اس سے مسلم ممالک کو درپیش تمام مسائل حل کئے جاسکتے ہیں اگر وہ قرآنی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مائنمار میں مسلمانوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جن کو ان کے ملک سے نکالا جارہا ہے اور عرب دنیا کے مسلمان دیگر ممالک میں پناہ لینے کی تلاش میں ہیں۔ یہ سب قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس پر سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب مسلم ممالک کو ترقی یافتہ اور طاقتور تصور کیا جاتا تھا اور انہیں کوئی دبا نہیں سکتا تھا۔ لیکن یہ منظر آج بالکل تبدیل ہوچکا ہے۔ اس لئے ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم آیا اخلاقی تعلیمات پر عمل کررہے ہیں۔ ہمیں دشمنوں کی طرح صرف جدید آلات کی ضرورت ہے لیکن نہ انہیں تیار کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ مسلمانوں کے تحفظ کیلئے ان سے لیس ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہب کے مطابق ہم مسلمانوں کا راست تحفظ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔