مسلم مورتیاں بناتے ہیں،ہندو ان کی عبادت کرتے ہیں۔ حیدرآباد کے محبوب چوک علاقہ پر خصوصی رپورٹ

,

   

حیدرآباد: حیدرآباد ایک فرخندہ شہر ہے۔ یہاں پر قدیم روایات موجود ہیں۔ حیدرآباد کا پرانا شہر اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ یہاں پر قدم قدم پر تاریخی عمارتیں، محلات اور دیگر اشیاء دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ کردیتی ہیں۔ یہاں پر چارمینار، مکہ مسجد، خلوت پیالیس، محبوب چوک، جامعہ نظامیہ، پرانی حویلی او ردیگر کئی مقامات ہیں جس سے یہاں کی قدیم روایات جھلکتی ہیں۔ اسی میں محبوب چوک اپنی خاص شناخت رکھتا ہے۔ یہاں پرہر زبان میں نئی او رپرانی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایک گھڑی کا مینار بھی ہے۔ یہ علاقہ چھٹویں نظام میر محبوب علی خاں بہادر کے نام سے موسوم ہے۔ اس علاقہ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر ہر قسم کا پرندہ فروخت کے لئے دستیاب ہے۔ مرغی، کبوتر، طوطا ا س کے علاوہ سینکڑوں قسم کے پرندہ اس علاقہ میں کئی مسلم لوگ میٹل کے مورتیاں بناتے ہیں۔ ان میں کئی مورتیاں شامل ہیں جن میں شیواجی بہادر، ہندوؤں کے بھگوان گنیش وغیرہ کے مجسمہ تراشے جاتے ہیں۔ آئیے یہاں کے کچھ کاریگروں سے بات چیت کرتے ہیں اور اس مجسمہ سازی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ مہاراشٹرا کے بہادر سپاہی شیواجی کے مجسمہ بنانے والے احمد محمد نے بتایا کہ ہمیں شیواجی کی مورتیاں بنانے کا بھاری مقدار میں آرڈر ملتا ہے۔

محمد عبدالعقیل نے بتایا کہ وہ پچھلے پندرہ سال یہ کام کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں کی بنی ہوئی مورتیاں سارے ملک میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل تک اسی مارکٹ سے مورتیاں فروخت ہوا کرتی تھیں لیکن چین سے بھی مورتیاں برآمد ہونے لگی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔ عقیل نے بتایا کہ پہلے یہاں پر مجسمہ سازی کے تقریبا 200 دکانات ہوا کرتی تھی لیکن اب20-30 دکانیں ہی باقی رہ گئیں۔ ہماری گذر ایک دکان سے ہوا جہاں سے کشور کمار کا گایا ہوا نغمہ جسے اس70 دہے کے سوپر اسٹار راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگور پرفلمایاگیا تھا ”میرے سپنو کی رانی کب آئے گی تو۔۔“ گانے کی آواز آرہی تھی۔ اس دکان میں کئی قسم کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں جن میں شیواجی، گنیش وغیرہ شامل ہیں۔ جب ہم نے ان سے ان کا نام پوچھا تو انہوں خالص حیدرآباد کی زبان میں کہا ”ناماں نکو پوچھو“ کہا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں دس سال سے کام کررہے ہیں۔ ایک اور شخص سے اس کا نام پوچھا گیا تو انہوں نے بتایاکہ ”این آر سی چل ری بھائی! نام نکو پوچھو‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ میری پیدائش پرانا شہر میں ہوئی ہے۔ میرے والد اور دادا بھی یہیں پیدا ہوئے۔ اس کے باوجود مجھے نہیں پتہ کہ میں یہاں کاشہری ہونے کے لئے کون سے دستاویزات دکھاؤں۔ محمد احمد نے بتایا کہ ہمارے یہاں خریداروں میں 90 فیصد ہندو ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میرے والد نے30 سال قبل یہ کاروبار شروع کیا تھا۔ ہمارے پاس ہندو، سکھ بھاری مقدار میں ہمیں مجسمے بنانے کے آرڈر دیتے ہیں۔ محمد احمد نے بتایا کہ ہمارے کاروبار میں ترقی کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئے۔ ہمارے سیاست ڈا ٹ کام کے نمائندے دانش ماجد اور محمد حسین نے رپورٹ اور تصاویر تیارکی ہیں۔