پروفیسر اپورو آنند
یوپی اسمبلی انتخابات اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں اور بی جے پی نے دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا۔ سب سے کراری شکست بی ایس پی کے حصہ میں آئی، اس نے 403 اسمبلی نشستوں پر مقابلہ کیا تھا اور 12% سے زائد ووٹ لینے کے باوجود ریاست بھر میں اس کا صرف ایک امیدوار ہی کامیاب ہوسکا۔ مایاوتی کی پارٹی کی شرمناک شکست میں سمجھا جاتا ہے کہ مسلم رائے دہندوں کا اہم کردار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مایاوتی اس بات کو لے کر کافی پریشان ہے کہ مسلمانوں نے بی ایس پی کے حق میں ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔ اس رجحان سے پریشان مایاوتی نے یہ اشارہ دیا ہے کہ انہیں ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ ان کے سیاسی موقف میں وہ تبدیلی کیا ہوگی، اس بارے میں تفصیلات کا انکشاف کرنے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ مایاوتی کا کہنا ہے کہ جاٹو دلت ان کی پارٹی کے ساتھ ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے رہے اور مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے غلط فیصلہ کیا۔ مایاوتی کے مطابق اس فیصلے نے پارٹی کے ہندو رائے دہندوں کو بی جے پی کی جانب ڈھکیلا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور او بی سیز نے یہ سوچا کہ اگر سماج وادی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو پھر ایک بار ریاست میں جنگل راج ہوگا، اسی لئے یہ لوگ بی جے پی کی طرف گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہمیں یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ اگر مسلمان یقینی طور پر اُن (مایاوتی) کی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے تو ہندو بھی بی ایس پی کے حق میں رائے دہی کئے ہوتے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ آیا جاٹو دلت اور دیگر درج فہرست ذاتوں نے اس مرتبہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی طرح سلوک کیا کیونکہ ان لوگوں نے بھی ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کئے۔ اگر ہم سی ایس ڈی ایس کی جانب سے مابعد انتخابات جاری کردہ اعداد و شمار پر یقین کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جاٹو دلتوں نے بی ایس پی سے منہ موڑ لیا۔ پچھلے انتخابات کی بہ نسبت جو 2017ء میں ہوئے تھے، اب تک 12% جاٹو دلتوں نے بی ایس پی کا ساتھ چھوڑا ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ کسی پارٹی کو ہوا ہے تو وہ بی جے پی ہے۔ اسی طرح دیگر پسماندہ طبقات اور دوسری دلت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں نے بھی بی ایس پی کو چھوڑ کر بی ایس پی کا رخ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف جاٹ رائے دہندوں نے ہی بی ایس پی کی تائید کی اور اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بی ایس پی کو صرف جاٹوں کی تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں آخر بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ اپنی پارٹی کی ناقص کارکردگی کیلئے صرف مسلمانوں کو ذمہ دار کیوں قرار دے رہی ہے۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ کانگریس جیسی ملک کی قدیم اور سکیولر پارٹی کو بھی مسلم ووٹرس نے ووٹ نہیں دیا۔ اس مرتبہ کانگریس سے دوری اختیار کرنے والے مسلم رائے دہندوں کا فیصد بی ایس پی کو خیرباد کہنے والے مسلم رائے دہندوں کے فیصد کے برابر ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ فائدہ سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو ہوا۔ ماضی میں کانگریس پر بی ایس پی کے حق میں ووٹ کا استعمال کرنے والے مسلمان سماج وادی پارٹی کی تائید میں اُتر آئے، لیکن کانگریس نے کوئی شکایت نہیں کی اور مایاوتی شکایت کررہی ہیں کہ مسلمانوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ بی ایس پی کو ووٹ دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے حالانکہ جب ریاست اترپردیش میں خاص طور پر شہریت ترمیمی قانون کی تدوین کے بعد مسلمانوں نے احتجاج کیا تب یوپی میں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا تھا لیکن اس وقت مایاوتی مسلسل خاموش رہیں، یہاں تک کہ جب مسلمانوں کو گرفتار کیا جارہا تھا اور مسلمانوں کے خلاف قوانین بنائے جارہے تھے، ان قوانین پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نشانہ بنایا جارہا تھا، تب بھی مایاوتی خاموش رہیں۔ پھر کیسے مایاوتی یہ شکایت کرسکتی ہیں کہ مسلمانوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ اگر مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ بی جے پی کا اقتدار نہیں چاہتے تھے۔ مایاوتی نے کافی نشستوں پر مسلم امیدوار میدان میں اُتارے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو رجھانا تھا۔ اگر کل بی جے پی ایک نہیں دو نہیں بلکہ 100 مختار عباس نقوی یا شاہنواز حسین کو ٹکٹ دیتی ہے تو کیا مسلمان سے یہ اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ان کے حق میں ووٹ استعمال کریں گے؟ مایاوتی نے مسلمانوں کو امیدوار تو بنایا لیکن انہوں نے اس توقع سے مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے تاکہ ان کے ووٹ حاصل کرسکیں۔ مابعد انتخابات جو اعداد و شمار منظر عام پر آئے، اس میں واضح طور پر پتہ چلا کہ یوپی کے مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کا ساتھ دیا۔ اس کی وجہ بھی ہے۔ درج فہرست ذاتوں نے خود اپنی پارٹیوں سے دور ہوکر بی جے پی سے قربت حاصل کی جبکہ بی جے پی کو برہمنوں کی پارٹی تصور کیا جاتا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں 2017ء کے انتخابات کی۔ درج فہرست ذاتوں نے ایس پی کو بھی ووٹ دیا جبکہ 2017ء میں دیگر درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والے 44% رائے دہندوں نے بی ایس پی کا ساتھ دیا۔ اب ان کی تعداد گر کر 27% ہوگئی۔ پھر مایاوتی اس بات کی شکایت کیوں نہیں کررہی ہیں کہ بی جے پی کی کامیابی کیلئے ایس سی ذمہ دار ہیں، حالانکہ مایاوتی اچھی طرح جانتی ہیں کہ بی جے پی حکومت کی دوسری میعاد میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ مسلمان ، دوسرے شہریوں کی طرح اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ووٹ دیں تو اس میں کیا قباحت ہے مثلاً دہلی میں مسلمانوں نے بار بار عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا ، اس کے باوجود عآپ نے خود کو سی اے اے کے خلاف تاریخی شاہین باغ تحریک سے دُور رکھا۔ بعد میں اس کے لیڈروں نے اسے بی جے پی کی سازش قرار دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان دوبارہ عام آدمی پارٹی کے حق میں ووٹ دیں گے اور دیں گے تو کیوں دیں گے ۔ بلدی انتخابات ہوں گے تب یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ مسلمان کس طرح فیصلہ کریں گے ۔ یوپی میں مایاوتی نے بظاہر جو ترجیحات رکھی اور مسلمانوں کو امیدوار بنایا، اس نے ہندوؤں کو چوکس کردیا اور پھر ہندو ووٹ بی جے پی کے حق میں گئے۔ اگر ہم قومی اور ریاستی سطح کے انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے تمام سیاسی جماعتوں کانگریس، بائیں بازو، سوشلسٹوں، آر جے ڈی، لوک دل، سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا۔ تمام قائدین بشمول جنتا پارٹی اور وی پی سنگھ نے مسلم ووٹ حاصل کئے۔ سی ایس ڈی ایس کے جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی ایک پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ ایسے میں مسلم ووٹ جیسے الفاظ نہیں ہونے چاہئیں۔ مسلمان فی الوقت ایک مسلمان کی طرح فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں ایک ایسے خطرے کا سامنا ہے جو شیخ کو چھوڑتا ہے، نہ ہی انصاری کو بخشتا ہے۔
ایک بات ضرور ہے کہ ملک میں فی الوقت اشرافیہ مسلم بھی محفوظ نہیں ہیں۔ شرجیل امام ، صفورہ زرگر ، عمر خالد ، شاہ رخ خاں کا بیٹا آرین خاں وغیرہ بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ احسان جعفری کو بھی آج تک کوئی نہیں بھول پایا کہ انہیں کس بیدردی سے قتل کیا گیا۔ آج اگر کسی اشرافیہ مسلمان کو بتایا جاتا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو آر ایس ایس کو زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ یوپی میں اویسی نے مسلم قیادت کی بات کی بات کی۔ مسلمان ان سے اتفاق کئے لیکن ان کا انتخاب نہیں کئے ۔ میں نے اب تک جن مسلمانوں سے بھی بات کی۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ وہ ہم سکیورٹی چاہتے ہیں، کتنی شرم کی بات ہے کہ آج ملک کا مسلمان بالخصوص نوجوان سکیورٹی مانگتے ہیں۔