مشرق وسطیٰ میں طاقت کی جنگ کا فاتح ایران؟

   

تہران 20 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدلتا جا رہا ہے۔ ایران نے ان تبدیلیوں کو بڑی دانش مندی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے اور تہران خطے میں قائدانہ کردار کے حامل نئی طاقت بن سکتا ہے۔ امریکہ عسکری حوالے سے شمالی شام سے نکل چکا ہے لیکن سفارتی میدان وہ اب بھی موجود ہے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ بات چیت کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا کہ ترکی شمالی شام میں اپنی فوجی کارروائیوں میں پانچ روزہ فائر بندی پر تیار ہے۔شامی کردوں کے مطابق یہ فائر بندی اگرچہ عملآ وہ نہیں ہو گی، جس کی کہ انقرہ میں ترک کابینہ نے حمایت کی ہے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ ترک صدر ایردوآن کا یہ اعلان صرف امریکا کی کافی بھرپور سفارتی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔جو بات واضح نہیں، وہ یہ ہے کہ آیا اس فائر بندی اعلان کا واقعی احترام بھی کیا جائے گا؟ غیر واضح تو یہ بات بھی ہے کہ آیا وائٹ ہاؤس کی سوچ یہ ہے کہ نائب صدر مائیک پینس کا دورہ ترکی اس خطے میں امریکہ کی سیاسی اور سفارتی کوششوں کا ایک نیا مرحلہ تھا یا شاید وہ آخری کوشش جس کا مقصد یہ تھا کہ شمالی شام سے امریکی فوجی انخلاء کم از کم بہت جلدی میں کیا جانے والا کوئی اسٹریٹیجک فیصلہ ثابت نہ ہو۔لیکن یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی کوششیں واضح طور پر اور اس طرح کم کر دی ہیں کہ ان کے بعد شروع ہونے والے ضمنی اثرات کا سلسلہ بھی اب کافی طویل ہو چکا ہے۔ ان ضمنی اثرات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب خطے میں نئے اتحاد اور طاقت کے نئے مرکز قائم ہونے لگے ہیں۔ بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ خطے کی کوئی بھی دوسری ریاست اس امر کی ایران سے زیادہ قائل نظر نہیں آتی کہ وہ ان بدلتے ہوئے حالات کو اپنے حق میں استعال کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔