مشعل راہ … سید جعفر حسین

   

انیس عائشہ
وائے گلچینِ اجل سے کیسی نادانی ہوئی
پھول وہ توڑا کہ گلشن بھر میں ویرانی ہوئی
حضرت سید مقبول حسینؒ جب یوپی سے شہر حیدرآباد کے ایک دور دراز غیرآباد محلے میں آکر بسے تھے تو ان کو کیا خبر تھی کہ ان کے ایک سپوت حضرت سید محمد بشیر حسینؒ اور ان کی ذریت نہ صرف اس محلہ کی آبادی اور ترقی میں اضافہ کرے گی بلکہ ان کا نام بھی یادگار بنائے گی۔
چمن میں پھول کا کھلنا تو کوئی بات نہیں
مگر وہ پھول جو گلشن بنائے صحرا کو
سید جعفر حسینؒ اپنی عمر کی 80 بہاریں دیکھ کر 4 جنوری 2023ء کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ دراصل انہوں نے چمن میں صرف پھول بن کر زندگی نہیں گذاری بلکہ ان کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جنگل کو باغ بنا دیا۔ دنیا میں مجموعی طور پر دو طرح کے عمل ہوتے ہیں خیر اور شر۔ انسان ان ہی دونوں کے درمیان زندگی گذارتا ہے۔ مبارک ہیں جعفر حسین جن کی زندگی خیر سے بھری ہوئی ہے، ان کے کارناموں کو کئی صفحات میں لکھا جاسکتا ہے۔ 4 جنوری کو گوکہ ان کی طبعی موت ہوئی جو ہر زندگی کا انجام ہے لیکن وہ ایسے شخص تھے جو اپنے دردمندانہ خیر کے کاموں کی وجہ سے زندۂ جاوید ہوگئے۔ وہ اپنی اُمید، حسرت اور مقاصد میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ زندگی جس کو موت ہے تو ماہ سال میں گنی جاسکتی ہے لیکن عظیم مقاصد کو موت نہیں چھوسکتی، وہ اپنے اعمال میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
حضرت بشیر حسین کثیرالعیال شخص تھے، ان کی محنت و خوش قسمتی کے سبب سب اہل و عیال یکجا اور قریب رہے۔ قربت کی وجہ سے یہ بات بہت آسان تھی کہ سب ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک رہے۔ صاحبزادے جعفر حسین نے اس بات کو یقینی بنالیا تھا کہ سب کی خبر رکھیں حتی المقدور کسی کو پریشان نہ ہونے دیں، پورے خاندان کو جوڑے رکھیں۔ ہر ایک کے حال سے ہمیشہ باخبر رہتے۔ ارشاد باری ہے: صالحین اس زمین کے وارث ہوں گے۔ ہر فرد پر لازم ہے کہ دوسرے فرد کا نگہبان اور محافظ ہو اور پوری جماعت کی فلاح و بہبود کا جواب دہ ہو۔ اللہ کے اس فرمان کو جعفر حسین نے بخوبی سمجھا اور عمل پیرا رہے۔ ایسا کرنے سے انسان میں نیک دلی، سادگی، انکساری پیدا ہوتی ہے اور غرور کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہ نہ صرف خود امن اور سلامتی سے رہے بلکہ اطراف کے لوگوں سے ربط قائم کرکے ان کی زندگی سنواری ، یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جن کو اللہ پاک چن لیتے ہیں اور یہ جذبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب دوسروں کی تکلیف اور حق تلفی دیکھ کر اپنا دل بے قرار ہوجائے اور اس وقت تک قابو میں نہ آئے جب تک اس کی خاطر خواہ مدد نہ ہوجائے، پھر اپنی ذات کی فکر ختم ہوجاتی ہے۔
اس کی اُمیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہہ دل نواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
اپنے طریقہ کو سب کے لئے مشعل راہ بنادیا۔ سعادت مند اولاد نے سر جھکا کر تعمیل کی، کتنی بار شیطان بہکایا ہوگا، بچوں کے مستقبل اور جمع پونجی خرچ ہوجانے کا خطرہ دکھایا ہوگا کیونکہ یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کو فتنے میں مبتلا کرتی ہیں۔ سورۂ کہف میں ارشاد ہے: یہ مال اور اولاد تو دنیا کی زینت ہیں۔اس طرح سب کے لئے ایک مضبوط جڑوں والے گھنے اور سرسبز پیڑ کی طرح سایہ کئے رہے لیکن کبھی کسی نے یہ سوچا کہ اس طرح سایہ دینے میں کتنی دھوپ سہنی پڑی ہوگی ۔ کنتی بارشیں، طوفان اور آندھیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جڑوں کو کتنا پانی اور کھاد دینی پڑی ہوگی۔ ماشاء اللہ سب نے اس سائے کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور آج خود سایہ دینے کے قابل ہوگئے ، دعا مانگی ہوگی ۔
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہے اس رہ پہ چلانا مجھ کو
اللہ نے دعا قبول کرلی ۔ اب ہماری دعا ہے:
دفتر ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نو رسے معمور یہ خاکی شبستاں ہو تیرا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے