مشکل حالات اور معاشی تنگی کے دور میں جینے کا ہنر سیکھنا ہوگا

   

سودی معاملات سے خاندانوں کی بربادی یقینی، سود لینا اور دینا گویا اللہ سے اعلان جنگ
مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی کا شاہی مسجدباغ عام میں خطاب
حیدرآباد ۔ 11 ۔ جولائی : ( پریس نوٹ ) : مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عام نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے شرک کے بعد نہایت ہی سختی کے ساتھ سود کی مذمت کی ہے اور اس کی برائی بیان کی ہے۔ اس کے برخلاف ہمیں مشکل حالات میں اور معاشی تنگی کے دور میں جینے کے ہنر کو سیکھنا ہوگا۔ یہ ایک اہم صفت، خصوصیت اور ضروری اسکیل ہے۔ تنگ دستی اور فقر و فاقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ فقر و فاقہ میرا طرئہ امتیاز ہے۔ حضور اکرمؐ کے گھر میں تین تین دن تک چولھا نہیں جلتا تھا۔ یہ واقعات صرف بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ اگر ہم پر ایسے حالات آئے تو اس پر عمل کرنے کے لیے ہیں۔ ہمیں حوصلہ دینے کے لیے سیرت مصطفی ؐکے بے شمار واقعات ہیں۔ پہلے ہمارے بڑے مشکل اور نامساعد حالات میں بھی صبر سے کام لیتے تھے۔ آج تو اگر ذرہ سی مشکل پیش آ جائے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں یا پھر لوگوں میں شکوہ شکایت کرتے رہتے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی تو دور کی بات ہے، ہم اپنی خواہشات کی تکمیل اور ’’معاشرے میں اپنے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے‘‘ بھی ناجائز طریقوں سے پیسے کمانے کی تاک میں رہتے ہیں۔ ایک متوسط اور کم متوسط و غریب گھرانے کے لوگ بھی اپنی شادیوں کو دھوم دھام سے اور خوب ’شان و شوکت‘ سے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ آخر صرف ایک دن کی شادی کے لیے اتنا سارا پیسہ کہاں سے آیا ہے؟ آخر انھوں نے یہ پیسہ کب اور کن ذارئعوں سے جمع کیا ہے؟ اپنی غیرضروری خواہشات کو پورا کرنے کی چکر میں مسلمان سود کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ آج ہم میں سے ہر شخص اپنی مالی حیثیت سے زائد محسوس کرانا اور دکھاواے کے لیے پیسوں کی ایک بڑی رقم کے قرضوں میں مبتلا ہے۔ ہمارے معاشرے کے چھوٹے سے چھوٹے گھروں میں بھی کم از کم دس دن کا تو اناج موجود ہے، پہننے کے لیے اچھے سے اچھے کپڑے ہیں، سفر کے لیے بہترین سواری ہے۔ اس کے باوجودبھی آج ہر شخص آخر پریشان کیوں ہے؟ ہمیں شیطان ’تنگدستی، مشکل حالات اور مایوسی‘ کا بہانہ بنا کر سودی لین دین والوں کے ہتھے چڑھادیتا ہے اور ہم مسلمان سود پر خوشی خوشی پیسے لیتے ہیں۔ اب سود پر پیسے لینا آسان بھی ہوگیا ہے۔ اسی سود کی چکر میں لوگوں کے کاروبار لٹ رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ کہ اللہ نے ہمارے اور ہمارے بچوں کی رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ جسے مقدر میں جتنا ملنا ہے، اسے ضرور مل کر رہے گا۔ ایک باپ اپنے بچوں اور اللہ کے درمیان کھلانے اور پالنے کا صرف ایک ذریعہ ہے۔ اگر کسی باپ کا آج ہی انتقال ہو جائے تو اس کی اولاد ایک وقت کے کھانے کی بھوکی نہیں رہے گی۔ اگر باپ مر جائے، ماں مر جائے تب بھی اولاد کو اللہ کھلائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر باپ اپنے جیتے جی اپنے بچوں کو حرام لقمہ کھلا رہا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ بچوں، بیوی اور بوڑھے ماں باپ کا حق ہے کہ انھیں حلال زرق فراہم کیا جائے۔ حرام مال کے ذریعے پرورش سے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے میں حرام مال گردش کرے گا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہم اپنے بچوں کو اپنے فاقوں کے واقعات کو فخر سے تو سنا سکتے ہیں لیکن یہ حرام مال کمانے اور سود خواری کی کہانی انھیں بتا نہیں سکتے۔ اگر یہ بات بچوں کو معلوم ہوگی تو ہمارے بچے خود ہمارے گھروں میں آنے سے کترائیں گے۔ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کے اعلان سے آگاہ ہو جائو، اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا‘‘۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر: 279) ۔ ہم دستر خوان کے مزے، دکھاوے، سوشل اسٹیٹس کے لیے اپنی سکت سے زیادہ سودی معاملات میں ملوث ہیں۔کیا ہم سے بہت سی خواتین کے زیوارات رہن سنٹرز اور بینکوں میں رکھے ہوئے نہیں ہیں؟ ہماری پوری سوسائٹی سودی معاملات میںملوث ہو کر گویا خدا سے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے اور ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول کرے گا اور ہمارے حالات درست کرے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ آج سے ہی ہم حلال رزق کو ترجیح دیں اور ایک دوسرے سے یقین دہانی کرائیں کہ آج سے نہ سود لوں گا اور نہ سود دوں گا اور نہ کسی بھی طرح کے سودی معاملات میں معاونت کروں گا۔ اگر ہم اللہ سے جنگ چھیڑیںگے تو آخر کون ہمارے مدد کو آئے گا۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ کوئی سودی معاملات میں ملوث ہے، تو اس کی دعوتوں میں نہ جائیں اور اس کے ساتھ لین دین کے تعلقات بھی منقطع کیے جائیں۔