قاہرہ۔مصر میں ایک 22 سالہ شخص نے مبینہ طور پر 100 سے زائد خواتین کوجنسی طورپرہراساں کیا۔سوشل میڈیا پر حکام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات شروع کریں۔تفصیلات کے مطابق یہ الزامات ٹوئٹر پر قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کیایک سو طالبِ علموں کی جانب سے عائد کیے جا رہے ہیں۔طلبہ کو ہراساں اور بلیک میل کرنے والا یہ شخص اس یونیورسٹی میں خود بھی زیر تعلیم رہ چکا ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق اس شخص (جس کا نام ظاہر نہیں کیا) نے 2018 میں یونیورسٹی چھوڑی۔انتظامیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سب کے لیے محفوظ ماحول بنانے کے لیے پرعزم ہے اور جنسی ہراسانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایک خاتون نے کہا کہ اس شخص نے ان پر اور ان کی بہن پر اس وقت جنسی تشدد کیا جب وہ دونوں 13 اور 14 سال کی تھیں۔ اور ان کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے بات نہ مانی تو وہ دونوں کی تصاویر کو نازیبا بنا کر کے عام کر دے گا۔ایک اور طالبہ نے کہا کہ مذکورہ شخص نے انہیں ہراساں کیا، ان کا پیچھا کیا اور انہیں دھمکی دی کہ وہ اس کے خاندان والوں کو بتائے گا کہ ان کے اس کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ تاہم طالبہ نے کہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔طالبہ نے لکھا ہے کہ وہ انہیں اپنی باتیں منوانے کے لیے بلیک میل کرنا چاہتا تھا۔ایک اور خاتون نے کہا کہ اس شخص نے بچپن ہی سے خواتین کے ساتھ ایسا سلوک رکھا ہے اور طلبہ کی جانب سے شکایات کی وجہ سے اسے مسلسل اسکول تبدیل کرنا پڑتے تھے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ شخص کے والد نے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے مصر اور بیرون ملک کے اسکولوں میں اس کے داخلے کروائے تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔خاتون نے مزید کہا کہ جب یہ شخص قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی آیا تو اس نے خواتین کو ہراساں کرنا جاری رکھا۔ وہ خواتین سے دوستی کرتا اور پھر اپنے خاندانی ولا میں ان پر تشدد کرتا تھا۔طالبات کے مطابق مذکورہ شخص مبینہ طور پر ان واقعات کی تصاویر بھی لیتا تھا تاکہ ان خواتین کو بلیک میل کر سکے۔رواں ہفتے کے اوائل میں خواتین کے ایک گروپ نیانسٹاگرام پر اسالٹ پولیس نام کا ایک گروپ بنایا جس کے ذریعے انہوں نے مذکورہ شخص کے خلاف اب تک ڈیڑھ سو الزامات اکھٹے کیے ہیں اور مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین سے بیانات لیے ہیں۔اس فروپ نے وہ ٹیکسٹ اور وائس میسجز بھی جمع کیے ہیں جو کہ اس شخص نے مبینہ طور پر ان میں سے کچھ خواتین کو بھیجے تھے۔سوشل میڈیا پر اس شخص کی گرفتاری کے مطالبے پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹی میں ایک عصمت ریزی کرنے والے کے موجود ہونے کی افواہیں تھیں تاہم اس وقت بعض لوگوں نے کہا کہ مذکورہ شخص ذہنی بیماری کی وجہ سے زیر علاج تھا اور اس طرح کے الزامات اسے خودکشی کی طرف لے جائیں گے۔ابتدائی الزامات سامنے آنے کے بعد مذکورہ شخص اسپین کے شہر بارسلونا منتقل ہو گیا تھا۔ اس شخص کے والد نے الزامات لگانے والی خواتین کو دھمکی دی جس کے بعد ان خواتین نے اس کی نئی یونیورسٹی سے رابطہ کر کے انہیں مذکورہ شخص کی دھمکیوں کے اسکرین شاٹس دکھائے۔