مصنوعی ذہانت کو توانائی کا بحران، عمارتوں کی جلد تکمیل کا مسئلہ درپیش

   

واشنگٹن، 11 نومبر (یو این آئی) مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں سبقت کی دوڑ میں، امریکی ٹکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے پاس پیسہ اور چپس تو ہیں، لیکن ان کی خواہشات کو بجلی کی کے بحران کا سامنا ہے ۔ مائیکروسافٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ستیہ نڈیلا نے حال ہی میں اوپن اے آئی کے چیف سیم آلٹمین کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ میں اعتراف کیا کہ اب ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ کمپیوٹ کی کمی ہے ، بلکہ بجلی اور بلڈنگز کو تیزی سے مکمل کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے ۔ نڈیلا نے کہا کہ اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو ممکن ہے کہ آپ کے پاس انوینٹری میں چپس تو ہوں لیکن میں انہیں لگا ہی نہ سکوں۔ 1990 کی دہائی کے ڈاٹ کام جنون کی طرح انٹرنیٹ انفرااسٹرکچر کی تعمیر کیلئے آج کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے انقلاب کی سلیکن ریڑھ کی ہڈی تعمیر کرنے کیلئے بے مثال رقم خرچ کر رہی ہیں۔ گوگل، مائیکروسافٹ، اے ڈبلیو ایس (ایمازون) اور میٹا (فیس بک) اپنے بڑے کیش ریزروز استعمال کرتے ہوئے 2025 میں تقریباً 400 ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں اور 2026 میں اس سے بھی زیادہ خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور فی الحال پرجوش سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل ہے ۔ یہ تمام پیسہ ابتدائی رکاوٹ کو دور کرنے میں مددگار رہا ہے ، ضروری کمپیوٹنگ پاور کیلئے لاکھوں چپس حاصل کی جارہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں اپنے اندرونی پروسیسر کی پیداوار تیز کر رہی ہیں، تاکہ عالمی رہنما این ویڈیا سے پیچھے نہ رہ جائیں، یہ چپس ان ریکس میں جائیں گی جو بڑے ڈیٹا سینٹرز کو بھرتی ہیں، جو ٹھنڈک کیلئے بے حد مقدار میں پانی استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ میں بڑے انفارمیشن ویئر ہاؤس بنانے میں اوسطاً دو سال لگتے ہیں جبکہ نئی ہائی وولٹیج پاور لائنز کو فعال کرنے میں 5 سے 10 سال لگ جاتے ہیں۔ سلیکن ویلی میں بڑی ٹیک کمپنیوں کو ‘ہائپر اسکیلرز’ کہا جاتا ہے ، توانائی کی رکاوٹ آنے کی پیش گوئی کر چکے تھے ۔ ایک سال قبل، ورجینیا کے اہم یوٹیلیٹی فراہم کنندہ، ڈومینین انرجی کے پاس پہلے ہی 40 گیگا واٹ کے ڈیٹا سینٹرز کے آرڈر بُک موجود تھے ، جو 40 نیوکلیئر ری ایکٹرز کے پیداوار کے مساوی ہے ۔ ورجینیا دنیا کا سب سے بڑا کلاؤڈ کمپیوٹنگ مرکز ہے ، اس کی صلاحیت اب بڑھ کر 47 گیگاواٹ ہو گئی ہے ، جیسا کہ کمپنی نے حال ہی میں اعلان کیا تھا۔ امریکہ میں گھریلو بجلی کے بل بڑھانے کا الزام پہلے ہی ڈیٹا سینٹرز پر عائد کیا جا چکا ہے اور مختلف مطالعات کے مطابق 2030 تک ڈیٹا سینٹرز قومی بجلی کی کھپت کا 7 فیصد سے 12 فیصد حصہ لے سکتے ہیں، جو آج 4 فیصد ہے لیکن کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ اندازے بڑھا چڑھا کر بیان کیے جا سکتے ہیں۔ یو سی برکلے کے معروف ماہر جوناتھن کومی نے ستمبر میں خبردار کیا کہ یوٹیلیٹیز اور ٹیک کمپنیوں دونوں کیلئے یہ فائدہ مند ہے کہ وہ بجلی کے استعمال کی تیز رفتار ترقی کی پیش گوئی کو اپنائیں۔
مورگن اسٹینلے کے مطابق اگر متوقع ترقی حقیقت بن جاتی ہے ، تو 2028 تک 45 گیگاواٹ کی کمی پیدا ہو سکتی ہے ، جو 33 ملین امریکی گھروں کے استعمال کے برابر ہے ۔ کئی امریکی یوٹیلیٹیز نے پہلے ہی کوئلے کے پلانٹس بند کرنے میں تاخیر کی ہے ، حالاں کہ کوئلہ سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والا توانائی کا ذریعہ ہے ۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق قدرتی گیس، جو دنیا بھر میں ڈیٹا سینٹرز کے 40 فیصد کو طاقت فراہم کرتی ہے ، دوبارہ مقبول ہو رہی ہے کیوں کہ اسے تیزی سے نافذ کیا جا سکتا ہے ۔ امریکہ کی ریاست جارجیا میں، جہاں ڈیٹا سینٹرز تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ایک یوٹیلیٹی نے 10 گیگاواٹ گیس سے چلنے والے جنریٹرز نصب کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔