مظلوم لڑکی کی کہانی||از قلم: مفاز شریف ندوی

   

مظلوم لڑکی کی کہانی||از قلم: مفاز شریف ندوی۔

اس زمانے میں ایسے واقعات کا وقوع حد شیوع کو پہنچ گیا ہے، جن میں آدمی اپنے دل کو بہلانے کے لیے لوگوں کے دلوں کو دہلانے لگا ہے۔ چھوٹا اپنے بڑوں کے حقوق سے ناواقف ہے اور بڑا اپنے چھوٹوں کے حقوق سے بے پروا معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ جب انسان اپنے خالق کو بھول جاتا ہے تو خدا اسے بھلا دیتا ہے۔ دوسری جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ خدا انہیں خود اپنی ذات کی بابت نسیان سے دوچار کردیتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے باہمی حقوق اتھل پتھل ہوجاتے ہیں اور معاشرتی مصلحتیں شکستہ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ وہ ایسے زخموں اور پھوڑے پھنسیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جن کا اندمال قریب قریب محال ہوجاتا ہے۔ ہاں! اگر اسلامی احکامات کے سائے میں سانس لیں تو شفا کی امید ہے۔

آج کل اتنے محیر العقول واقعات رونما ہورہے ہیں کہ ذرا سا معمولی واقعہ نظر انداز ہوجاتا ہے۔ آج ہر روز ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے۔ اس کا حسین دل مکروہ اور اس کا تابناک چہرہ داغدار ہورہا ہے۔ لیکن شاید لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔

آپ پوچھیں گے کہ آخر یہ کونسا واقعہ ہے؟

جواب جون ایلیا کی زبانی سنیے:

کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر

ایک میں، ہر کسی کو بھول گیا

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی، آدمی کو بھول گیا

آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے اپنے حقوق حاصل ہوں، خواہش صحیح ہے مگر مشکل یہ ہے اس پر جو دوسروں کے حقوق واجب ہیں ان کی ادائیگی بار خاطر معلوم ہوتی ہے۔ ہر طرف نسیان حقوق کا غلبہ ہے۔ شاعر اس عظیم الشان واقعے کو دنیا کا سب سے پر امن واقعہ قرار دے رہا ہے، اور اس طرح فطرت انسانی کے ایک خرابی کی تشخیص کررہا ہے۔ آج اس مرض کا ظہور کچھ اس طرح ہوا، اڑیسہ کے ایک دیہات میں ایک گیارہ سالہ لڑکی کے حقوق پامال ہوتے رہے، اور پامال کرنے والا خود اس کا باپ تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے باپ نہیں تھا بلکہ سراپا پاپ تھا۔ لڑکی کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا، اس کے باپ نے دوسری عورت سے شادی کرلی اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ لڑکی اس ماحول سے مجبور ہوکر اپنے گھر سے نکل پڑی اور پیدل چلتے چلتے دس کلومیٹر کا طویل سفر کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن چلی گئی، اور اپنے باپ کے خلاف رپورٹ درج کردیا۔

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟

لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں