اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جبلت میں خیر وشر دو نوں مادہ رکھے ہیں،جب اس پر خیر کی جانب سے محنتیں ہوتی ہیں ،نور حق کی نورانی کرنیں اس پر پڑتی ہیں تو وہ دھل کر صاف ستھرا اور نکھر کر روشن چمکدار ہوجاتا ہے، اور جب اس پرشر کے گھنے بادل چھاجاتے ہیں تو اسے چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور ہر آن اس کے وجود کو تاریکی کی طرف ڈھکیلتے رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے وہ تاریکی میں ڈوب کر اپنا وجود کھودیتا ہے، جس وقت معاشرہ میںخیر کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ پورے معاشرہ کو اپنی خوشبو سے معطر کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں پورا معاشرہ ایک حسین گلدستہ بن جاتا ہے اور اس کے اثرات سے اردگرد کی پوری فضا خوشگوار ماحول پیش کرتی ہے،بر خلاف جس وقت معاشرہ کا فرد شر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بُرائی کو اپنے گلے لگا لیتا ہے تو اس کے شر سے اول خود متأثر ہوتا ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو اس کی خطر ناک زہریلی ہوائیں پورے معاشرہ کو ایک خطرناک قسم کی بیماری میں مبتلا کر دیتی ہے ،اسی وجہ سے معاشرہ کے ہر ہر فرد کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ خود بھی خیر پر گامزن رہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے رہیں ،نیز شر اور اس کی خطرناکی سے خود بھی بچتے رہیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی فکر کریں،اسی کو قرآنی زبان میں ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر ‘‘ کہا جاتا ہے،قرآن مجید میں راہ حق اور صراط مستقیم پر قائم رہنے اور اس پر جمے رہنے کے لئے نہایت جامع دعا سکھلائی گئی ہے اور ہر نماز میں ’’اہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْم‘‘ کے ورد کا حکم دے کر اس پر ثابت قدمی کی خدا سے استعانت طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ اس کی توفیق واستعانت کے بغیر خیر وحق اور راہ ہدایت وراہ شریعت پر چلنا ناممکن ہے ، جہاںراہ حق اور طریق خیر پر چلنے کی تعلیم وترغیب دی گئی ہے وہیں راہ شرور وفتن اور اسباب شر سے دور رہنے کی نہ صرف تعلیم دی گئی ہے بلکہ تمام شرور اور بُرے اعمال کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جن سے نہ صرف فرد بگڑ تا ہے بلکہ پورا معاشرہ بگاڑ میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
قرآن مجید کی سورۂ حجرات آیت نمبر ۲۶ میں معاشرت کے متعلق نہایت اہم احکام بیان کئے گئے ہیں اور اس میں ان تین خطرناک قسم کی بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو نہ صرف باطنی خرابی کا سبب ہیں بلکہ ظاہری اعتبار سے معاشرہ کی سالمیت کے لئے نہایت خطرناک ہیں،ارشاد خداوندی ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُم بَعْضًا(الحجرات:۱۲)’’اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچا کرو،کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور کسی کے عیب کا سراغ نہ لگایا کرو اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے‘‘ ، اس آیت میں معاشرتی احکام ، معاشرہ کی اصلاح وتربیت اور پاکیزہ معاشرہ کو تباہ وتاراج کرنے والی جن تین بُرائیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں (۱) ظن (۲) تجسس(۳)غیبت،یہ تینوں گناہ اس قدر خطرناک اور اس کے اثرات اس درجہ ہلاکت خیز ہیں کہ جس میں مبتلا ہونے والا نہ صرف خود نقصان اُٹھاتا ہے بلکہ اس سے صالح معاشرہ کا نظام تباہ ہو کر رہ جاتا ہے،دلوں میں ایک دوسرے کی نفرتیں جنم لیتی ہیں،عداوتیں سر اُٹھانے لگتی ہیں،خلوص ومحبت کی دیوار منہدم ہوجاتی ہے اور پورے معاشرے کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ انہیں ناجائز اور حرام قرار دیکر خصوصیت کے ساتھ اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔
’’ظن‘‘ ا مام ابوبکر جصاصؒ نے احکام القرآن میں ظن کی کچھ اس طرح تفصیل بیان کی ہے ،لکھتے ہیں کہ ’’ ظن کی چار قسمیں ہیں ایک حرام یعنی اللہ سے بد گمان ہونا کہ وہ مجھے عذاب دے گا حالانکہ حدیث میں اللہ سے اچھا گمان کا حکم دیا گیا ہے اور کہا گیا بندہ اپنے پروردگار سے جیسا گمان رکھے گا اُسے ویسا ہی پائے گا، ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ لا یموتن احدکم الا وھو یحسن الظن باللہ ( مسلم :۷۴۱۰) ’’تم میں سے کسی کو اس کے بغیر موت نہ آنی چاہیے کہ اس کا اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہو‘‘ ، دوسرا واجب یعنی جو کام ایسے ہیں کہ ان میں کسی جانب عمل کرنا شرعاً ضروری ہے اور اس کے متعلق قرآن وسنت میں کوئی دلیل وضح موجود نہیں ،وہاں ظن غالب پر عمل کرنا واجب ہے ، جیسے جہاں سمت قبلہ معلوم نہ ہو اور کوئی ایسا آدمی بھی نہ ہو جس سے قبلہ کی سمت معلوم کیا جاسکے وہاں اپنے ظن غالب پر عمل ضروری ہے،تیسرا ظن مستحب یعنی نماز کی رکعتوں میں شک ہوجائے کہ تین پڑھی ہیں یا چار تو اپنے ظن غالب پر عمل کرنا جائز ہے،اور چوتھا ظن جائز یعنی یہ کہ ہر مسلمان کیسا تھ نیک گمان رکھے کہ اس پر ثواب ملتا ہے ( معارف القرآن :۸؍ ۱۲۹؍ ۱۳۰)، اس آیت میں جس گمان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ باتفاق کسی مسلمان کے ساتھ بلا کسی قوی دلیل کے بدگما نی کرنا ہے ، قرآن مجید میں جہاں گمان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں حسن ظن اور اچھا گمان رکھنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے ، ارشاد خداوندی ہے :لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِہِمْ خَیْْراً(النور: ۱۲) اس آیت کے متعلق علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس میں حسن ِ ظن بالمؤمنین کی تاکید آئی ہے،(ایک حدیث میںآپ ؐ نے گمان کو جھوٹ قرار دیا ہے ،ارشاد ہے:ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ( بخاری:۵۱۴۳) ’’گمان سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی بات ہے‘‘ ۔
’’ تجسس‘‘ تجسس کسی کے عیب تلاش کرنے میں لگے رہنا ہے ، یہ بھی ظن کی طرح نہایت خطرناک جرم اور گناہ ہے ، قرآن مجید کے ساتھ احادیث میں بھی تجسس کو نہایت بُرا عمل اور گناہ بتایا گیا ہے ،آپ ؐ نے تجسس کرنے ،کسی کے عیب تلاش کرنے اور کسی شخص کی خامیوں کے سراغ میںلگے رہنے سے سخت منع فرمایا ہے ، ایک حدیث میں آپ ؐ نے اس کی قباحت وشناعت اور اس کے برے نتائج بتاتے ہوئے فرمایا کہ جو کسی کے عیب تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کے عیب تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب اللہ تعالیٰ تلاش کرے تو اس کو رسوائی سے کون بچا سکتا ہے اگر وہ گھر کے اندر بھی رہے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کر کے ہی رہے گا،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:لا تغتابوا المسلمین ولا تتبعوا عوراتہم فانہ من اتبع عوراتہم یتبع اللہ عورتہ ومن یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ(ابوداؤد:۴۸۸۰)’’مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیب تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کی تلاش اللہ تعالیٰ کرے اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا کر دیتا ہے‘‘ تجسس کرنا ، کسی کے بارے تانک جھانک کرنا اور لوگوں کے عیبوں کو کُریدنا بہت سے لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے، تجسس کے ذریعہ وہ لوگوں کی خامیوں ،غلطیوں اور ان کے نجی معاملات معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح وہ خود اپنا گریبان چاک کر رہے ہیں اور خدا کی نظر میں خود ذلیل وخوار ہورہے ہیں ،اس عمل قبیح کے ذریعہ اگر یہ کسی کو ذلیل کرنا چاہ رہے ہوں گے لیکن در حقیقت میں وہ اپنے آپ کے لئے رسوائی کا سامان تیار کر رہے ہیں اور قیامت میں ضرور رسوا ہوکر رہیں گے،آدمی اگر روزانہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی اگر اپنے اوپر نظر ڈال لیا کرے تو اسے اپنی خامیاں نظر آنے لگیں گے اور جس کی اپنے خامیوں پر نظر ہوگی وہ کسی دوسرے کے خامیوں پر ہزگز نظر نہیں رکھے گا ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی بُرائیوں پر جو نظر
تو جہاں میں کوئی بُرا نہ رہا
’’غیبت‘‘ ،چونکہ غیبت سے رسوائی ،آبرو ریزی اور روحانی تکلیف ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات نتائج خطرناک ہوتے ہیں اس لئے اس سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے ، آپؐ نے ایک موقع پر صحابہ ؓ سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا کہ ’’کیا تم کو معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اللہ ورسول ہی زیادہ جانتے ہیں ،تو ارشاد فرمایا اپنے بھائی کے بارے میں ان باتوں کا ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو، کسی نے کہا اگر وہ ان میں موجود ہوتو ؟ فرمایا یہی غیبت ہے ورنہ تو بہتان ہے (جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے)(مسلم: ۶۷۵۸)، جس طرح پیٹھ پیچھے بُرائی کرنا غیبت ہے جو نہایت بڑا گناہ ہے اسی طرح کسی کے سامنے اسی کی بُرائی کرنا اور عیب لگانا بھی غیبت جیسا ہی گناہ ہے ،قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ،ارشاد خداوندی ہے ولا تلمزوا انفسکم (الحجرات:۱۱) ’’اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ‘‘ ، ابوداؤد میں ہے کہ معراج میں آپ ؑ نے دیکھا کہ بعض لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں اور وہ اس سے سینہ نوچ رہے ہیں پوچھنے پر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں اپنے بھائی کا گوشت کھاتے یعنی غیبت کیا کرتے تھے ، ایک حدیث میں ہے کہ چند لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ سینہ کے بل اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں پوچھنے پر بتا یا کہ یہ اشاروں سے غیبت کرنے والے تھے ،ایک حدیث میں مسلمان کی آبرو ریزی کو سود قرار دیا گیا ہے ارشاد ہے کہ سود کے ستر سے زیادہ دروازے ہیں ان میں کمتر یہ کہ کوئی بحالت ایمان اپنی ماں سے زنا کرے اور سود کا ایک درہم ۳۵ مرتبہ زنا کرنے سے بھی سخت ہے اور سب سے بد ترین سود مسلمان کی عزت پامال کرنا ہے ،( شعب الایمان :۶۲۸۹)ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓکے زبان سے حضرت صفیہ ؓ کے متعلق غیبت کے کلمات نکل گئے تو آپؐ نے اس پر تنبیہ فرمائی اور ارشاد فرمایا تم نے ایسا جملہ نکا لا ہے اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا پانی کڑ وا ہو جائے (ابوداؤد :۴۸۷۵)، ایک حدیث میں آپؐ نے غیبت کو زنا سے بد تر فرمایاہے وجہ پوچھنے پر فرمایا کہ زنا توبہ سے معاف ہوجاتا ہے مگر غیبت جس کی کی گئی ہے وہ جب تک معاف نہ کردے معاف نہ ہوگا(شعب الایمان:۶۳۱۵)، مسلم معاشرہ کاایک بہت بڑا طبقہ بلکہ تعلیم یافتہ ،سنجیدہ اور دینی مزاج رکھنے والا طبقہ بھی آج ان خطرناک ،حسنات کش ،روحانی واخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہے، معمولی معمولی بات پرایک دوسرے سے بدگمان ہو رہے ہیں،بدگمانی آگے چل کر نفرتوں کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے اندر ونی معاملات ٹٹولے جارہے ہیں اور ان کی خامیاں ڈھونڈی جارہی ہے اور آگے چل کر غیبت اور ان کے خامیوں کا افشا کیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں دلوں کی پاکیز گی ،باطن کی روشنی سیاہی میں بدل رہی ہے ،ان بُرائیوں میں ایک دو نہیں بلکہ کئی لوگ شریک ہوکر اپنے دلوں کو سیاہ ،زبان کو گندہ اور ذہن کو پراگندہ اور سکون وچین کو کھوتے چلے جارہے ہیں، یقینا یہ ایسے گناہ اور ایسے اخلاق سوز جرائم ہیں کہ جس کی وجہ سے معاشرہ کا وقار داؤ پر لگ جاتا ہے،بے چینیاں بڑھنے لگتی ہیں،نفرتیں پروان چڑھتی ہیں ،رنجشیں قدم جما تی ہیں ،عبادات کی لذت ختم ہوجاتی ہے اور آخر کار دونوں طرف سے گناہوں کی چنگاریاں شعلہ بن کر بھڑکتی ہیں اور نیکیوں کی لہلہاتی کھیتیوں کو جلاکر راکھ کر دیتی ہیں اور پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور معاشرہ بگاڑ کی طرف ایسی تیزی سے دوڑتا ہے جیسے کوئی اونچائی سے نیچے کی طرف آرہا ہے،معاشرہ کو صالح بنانے اور افراد کی اصلاح کے لئے قرآن مجید کے بیان کردہ ان تین بُرائیوں سے بچنا بہت ضروری ہے ،یہی وہ بُرائیاں ہیں جو دیگر بُرائیوں کے پھیلنے کا سبب بنتی ہیں ، اللہ تعالیٰ سبھوں کو ان روحانی ہلاکت خیز بیماریوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں اور حسن عمل کی توفیق سے مالامال کرے آمین۔
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ