معاشی امور کیلئے طالبان نے اشرف غنی حکومت کے عہدیداروںکو بلا لیا

   

کابل : طالبان کے لیے اقتدار سنبھالتے ساتھ ہی سب سے بڑا مسئلہ زبوں حالی کا شکار معیشت اور ملک میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غربت سے نمٹنا تھا۔ تاہم طالبان رہمناؤں میں سے کوئی بھی معاشی ماہر نہیں ہے جو معیشت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، لہٰذا انہوں نے اشرف غنی کی حکومت کے فنانشل مینیجرز کو واپس کام پر آنے کا حکم دیا اور اپنے فرائض انجام دینے کا کہا۔طالبان کا پیغام واضح تھا کہ ’اپنا کام کرو کیونکہ ہم نہیں کرسکتے۔‘مالیاتی اداروں کے چار سرکاری اہلکاروں نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ طالبان نے پچھلے دور حکومت میں وزارت خانہ، مرکزی بینک اور دیگر سرکاری بینکوں میں کام کرنے والے بیوروکریٹس کو دفتر واپس آنے کا کہا ہے۔2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے افغانستان کی معیشت میں خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ غیر قانونی ذرائع سے چلنے والی معیشت مزید پیچیدہ ہو گئی تھی جس کا دارومدار عالمی تجارت اور ڈونرز کی امدادی رقم سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالر تھے۔بیس سال کے عرصے میں قائم ہونے والے ملکی مالیاتی نظام کو سمجھنے میں طالبان کو دشواری کا سامنا ہے۔مرکزی بینک کے ایک اہلکار نے بتایا کہ طالبان نے انہیں کہا ہے کہ ’ہم ماہر نہیں ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ ملک کے لیے بہتر کیا ہے، ہم ان مسائل کے دوران کیسے گزارہ کر سکتے ہیں۔‘طالبان نے کہا کہ ’جو بھی ضروری ہے وہ کرو لیکن خیال رکھو اللہ تعالٰی آپ کو دیکھ رہا ہے اور جو کرو گے اس کا حساب روز حشر دینا پڑے گا۔