معاشی انحطاط ملت میں اصلاح پسندی کا متقاضی

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں جائیداد کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں لوگوں میں زیادہ سے زیادہ جائیداد کے حصول کے لئے حرص پیدا ہورہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب جائیداد کا معاملہ سامنے آتا ہے تو لوگ اخلاق اور خوف خدا کو فراموش کردیتے ہیں، خونی رشتہ دار بھی ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں، حق اور ناحق کا فرق ختم ہورہا ہے، اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی کوئی پرواہ نہیں کی جارہی ہے۔ چند مفاد پرستوں کے ذریعہ حق کو ناحق ثابت کیا جارہا ہے اور جن لوگوں کے شرعی و قانونی حصے ہوتے ہیں انہیں محروم کردیا جارہا ہے بالخصوص خواتین کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافیاں ہورہی ہیں۔ بہن‘ بہن کی دشمن اور بھائی‘ بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ عدالتی مقدمہ بازی کا طویل سلسلہ مستحق کو اس کا حق دلانے میں مددگار ثابت نہیں ہورہا ہے۔ مادہ پرستی کو اس قدر غلبہ حاصل ہوچکا ہے کہ بعض جگہ اولاد بھی ماں باپ کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور جب ان کی توجہ آخرت کی جانب کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہاں کا کون سوچتا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی میں آئے دن خبریں آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرتی اخلاق انتہائی زوال کی حالت میں ہیں اور ان حالات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض صاحبِ جائیداد لوگ اپنی زندگی میں وصیت کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے مستحق اپنے جائز حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسے کئی کیسس سامنے آئے ہیں جن میں حقدار کو اس کے جائز حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ صاحبِ جائیداد کے انتقال کے بعد خاندان کے بعض بڑے افراد دیگر بھائی بہنوں کو جائیداد سے محروم کردیتے ہیں اور اس جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدنی ہڑپ لیتے ہیں، ایسے بعض ظالم لوگ بیواؤں، یتیموں کا حق کھاکر عیش کی زندگی گذارتے ہیں اور اس قسم کی گری ہوئی حرکات آخرت کو تباہ کردیتی ہیں اور اس کے افسوسناک نتائج نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ ان کی اصلاح فوری کی جانی چاہیئے ورنہ معاشرہ ایسا ہوجائے گا جیسے کہ قرون اولیٰ کے حالات ہوا کرتے تھے جبکہ انسان غیر متمدن زندگی گذارا کرتا تھا، لیکن بعد ازاں حالات میں بہتری آتی گئی اور انسانوں میں شعور بیدار ہونے لگا جس کے نتیجہ میں قوانین اور مذہبی احکامات کا احترام ہونے لگا اور لوگ انہیں ترجیح دینے لگے لیکن پھر ایک مرتبہ گردش ایام کے نتیجہ میں ماضی کے حالات کا دوبارہ اعادہ ہونے لگا اور انسان پھر حرص و ہوس کا شکار ہونے لگا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں پر قوم کی اصلاح ہوتی ہے وہ اپنے فریضہ سے غافل ہیں اور ان کی نظر میں قانون اور دیگر باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ دولت مندوں اور طاقت کا ناجائز طور پر ساتھ دیا جارہا ہے اور ہر طریقہ سے اسے سہارا دیا جاتا ہے لیکن ان حالات میں مذہبی قوانین کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر موجودہ حالات اسی طرح جاری رہیں تو قوم کی ترقی ایک خطرہ بن سکتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک خاتون کی جانب سے داخل کی گئی درخواست کی سماعت کے دوران مشورہ دیا کہ اپنی جائیداد بچوں یا کسی اور کو بطور تحفہ دیتے وقت کئے جانے والے معاہدے میں جائیداد منتقل کرنے والوں کو چاہئے کہ پیرانہ سالی کے دوران نگہداشت اور تیمارداری یا پرورش کے سلسلے میں معاہدہ میں صراحت کرلیں کہ جائیداد بطورِ تحفہ منتقل کرنے کے دوران اس طرح کی کوئی شرط تحریر نہ ہونے کی صورت میں دیا گیا تحفہ واپس حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں واضح طور پر احکام جاری کرتے ہوئے ضعیف العمر شہریوں اور والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی محنت کی کمائی سے حاصل کی گئی جائیداد کو بطورِ تحفہ اپنے بچوں یا کسی رشتہ دار کے حوالے کرتے وقت جو معاہدہ تیار کرتے ہیں اس میں اس بات کی صراحت کریں کہ وہ یہ تحفہ انہیں حوالے کرنے کے عوض ضعیف العمری، پیرانہ سالی کے دوران نگہداشت، تیمارداری اور پرورش کے حقدار ہیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ دیا گیا تحفہ واپس لینے کے مجاز رہیں گے۔ موجودہ دور میں سرسید احمد خان جیسے اصلاح پسند یا علامہ اقبال جیسے ملت کا جذبہ رکھنے والے اکابرین کی ضرورت ہے تاکہ حالات کی اصلاح ہوسکے اور ملت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ مزید تفصیلات کیلئے فون نمبر9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔