پاکستان میں کرپشن اور چینی انجینئروں پر دہشت گردانہ حملے بنیادی سبب
اسلام آباد : پاکستان اور چین کے درمیان معاشی راہداری دونوں ملکوں کیلئے بہت دور رس نتائج کا حامل بڑا پراجکٹ ہے۔ اس ضمن میں بیجنگ حکومت نے پاکستان کو مالیاتی فائدہ پہنچانے کے کئی وعدے کئے اور اس کے بعد ہی ہندوستان کے پرزور احتجاج کے باوجود چائنا ۔ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پی ای سی) پر پیشرفت شروع ہوئی۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں چین کی طرف سے بدلے تیور نظر آرہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ چین اب 60 بلین ڈالر کے انفراسٹرکچر بلڈنگ پلان سے دستبردار ہونا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ بڑھتا کرپشن اور چینی انجینئروں پر دہشت گردانہ حملے بتائی جارہی ہے۔ ایشیا ٹائمس کے مطابق پاکستان آرمی جلد ہی سی پی ای سی کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے والی ہے تاکہ بیجنگ کو اطمینان دلایا جاسکے کہ ان کی سرمایہ کاری محفوظ اور سلامت رہے گی۔ آرمی چاہتی ہیکہ چینی انجینئروں کو دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ رکھا جائے اور انفراسٹرکچر پراجکٹس میں سہولت بہم پہنچائی جائے۔ اس ضمن میں ایک بل پیش کیا گیا ہے کیونکہ ایسے آثار معلوم ہورہے ہیں کہ چین اپنے وعدوں سے بتدریج پیچھے ہٹ رہا ہے۔ سرکاری سرپرستی والے چائنا ڈیولپمنٹ بینک اور ایکسپورٹ۔ امپورٹ بینک آف چائنا کی جانب سے مجموعی قرض 2016ء میں 75 بلین ڈالر کی اعظم ترین حد تک پہنچا تھا جو گذشتہ سال محض 4 بلین ڈالر ہوگیا۔ 2020ء کے عبوری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہیکہ یہ رقم مزید گھٹ کر 3 بلین ڈالر ہوچکی ہے۔ امریکہ میں بوسٹن یونیورسٹی کے محققین کے مطابق چین سماجی اور ماحولیاتی اعتبار سے ناسازگار حالات کے سبب سخت فیصلہ کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان جن کی حکومت پر ملٹری کے کنٹرول میں کام کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، انہیں بھی اپنے ملک میں شدید تنقیدوں کا سامنا ہے کہ وہ چین کی بڑی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے سلسلہ میں مناسب اقدامات کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ 2018ء میں عمران خان نے سابقہ حکومت کی جانب سے کرپشن کا شبہ کرتے ہوئے کئی سی پی ای سی پراجکٹس روک دیئے تھے۔ تاہم، دو سال بعد خود ان کی کابینہ کے کئی ارکان ملک کے پاور سیکٹر سے متعلق بڑے کرپشن اسکینڈلس میں ماخوذ کئے گئے۔ پاکستان کی تقریباً ایک تہائی برقی کمپنیاں سی پی ای سی کے تحت چینی پراجکٹس میں شامل ہیں۔ انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ زائد از 1.8 بلین ڈالر مالیت کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔