رامچندر گوہا
حالیہ عرصہ کے دوران دستور اور سیکولر و سوشلزم کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا، کسی نے دستورکی تمہید سے سیکولر اور سوشلزم جیسے الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تو کسی نے یہ کہہ کر دستور کے مخالفین کو حقیقت کا آئینہ دکھایا کہ الفاظ میں تبدیلی کی بجائے اپنی ذہنیت میں تبدیلی لائی جائے۔ آپ کو بتادیں کہ آئین کی تمہید 26 نومبر 1949 تک تحریر کی جاچکی تھی ۔ خود ہمارے ملک کی عدالت عظمیٰ نے صاف طور پر کہا ہے کہ سیکولرازم اور سوشلزم دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ بہرحال آج ہم ہندوستانی دستور کو اپنانے کے ساتھ ملک کے جمہوریہ بننے کی خوشی میں یوم جمہوریہ منارہے ہیں ۔ یہ وقت اقتدار پر براجمان سیاستدانوں کیلئے اپنی شان و شوکت، فخر اور خودداری کے اظہار کا ایک موقع ہوسکتا ہے ۔ میں یہاں آپ کو ہمارے ملک کے پہلے وزیر قانون اور دستور کی مسودہ ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی جانب سے دستور کو اپنانے سے کچھ دیر پہلے جاری کردہ کچھ وارننگس یا انتباہ کی یاد دہانی کرواکر آپ کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے جو خدشات ظاہر کئے تھے، وہ سچ ثابت ہورہے ہیں۔ جب دستور کا مسودہ تیار ہوگیا تب دستوری اصولوں اور اس کے تحریری حکمناموں پر تین برسوں تک بحث و مباحث کئے گئے ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اس دوران دستور ساز اسمبلی میں کئی اہم مداخلتیں کی اور پورے دلائل کے ساتھ ارکان دستور ساز اسمبلی کے شکوک و شبہات اور خدشات کو دور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ انہوں نے 4 نومبر 1948 کو دستور ساز اسمبلی میں مسودہ دستور پیش کرتے ہوئے اور اس کے ایک سال سے کچھ زائد عرصہ میں دو قابل ذکر تقاریر بھی کیں۔ انہوں نے آخر الذکر تقریر اس وقت کی جب اسمبلی میں دستور کی حتمی دستاویز پیش کی گئی ۔ انہوں نے اُس موقع پر جو کچھ کہا اس میں ایک اقتباس کافی مشہور ہے اور بار بار دہرایا جاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو ہندوستان میں مذہبی اور سیاسی قائدین کی ا یک ہیرو کی طرح پوجا کی جاتی ہے ۔ (آج کل ایسے لوگوں کی بھی پوجا کی جارہی ہے ، ان کے نام سے مندریں بنائی جارہی ہے جنہوں نے ملک اور قوم کی کوئی خدمت نہیں کی ، اس ضمن میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی مثال دی جاسکتی ہے جس کے نام سے مختلف شہروں میں مندریں تعمیر کی گئیں ہے ۔ جہاں اس کی موریاں رکھی گئیں ہیں)۔ بہرحال ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنے تاریخی خطاب میں ا پنے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ آپ لوگ Stuart Mill کے اس مشورہ پر غور کریں اس انتباہ کا بغور جائزہ لیں جو انہوں نے جمہوریت میں اور جمہوریت کی برقراری میں دلچسپی رکھنے والوں کو دیا ۔ مل نے جمہوریت کے حامیوں اس کے پروانوں کو ایک قیمتی مشورہ دیا کہ آپ کبھی کبھی اپنی آزادی یا آزادیوں کو کسی کے قدموں میں نہ رکھیں۔ یہاں تک کہ کسی عظیم شخصیت کے قدموں میں بھی نہ رکھیں یا اس پر اس کے اثر و رسوخ اس کی طاقت پر ہرگز اعتماد نہ کریں ۔ اس اثر و رسوخ اسی طاقت کے ذریعہ وہ جمہوریت کے اداروں کو الٹ سکتا ہے ۔ عوام کی اندھی محبت اسے جمہوری اداروں کو تباہ و برباد کرنے کے قابل بناتی ہے اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ یہ انتباہ ہندوستان کے معاملہ میں کسی بھی دوسرے ملک کے معاملہ سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم ہے کیونکہ اس ملک کی سیاست میں بھکتی جسے عقیدہ یا ہیرو کی پوجا کی راہ بھی کہا جاسکتا ہے ایک اہم حصہ ادا کرتی ہے ۔ یعنی ہندوستان کی سیاست میں عقیدہ (بھکتی) کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ایسا دنیا کے کسی ملک کی سیاست میں نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں بھکتی یا عقیدہ کو جو ا ہمیت حاصل ہے وہ کسی اور ملک کی سیاست میں نہیں پائی جاتی ۔ تا ہم ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہب میں بھکتی / عقیدہ روح کی نجات کی راہ ہوسکتی ہے لیکن سیاست میں بھکتی یا ہیرو کی پوجا تباہی و تنزلی اور عملاً آمریت کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو دستور ساز اسمبلی میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنے خطاب میں ہندوستانی سیاست کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ، وہ یقیناً پیشن گوئی کی طرح تھی اور ان کی وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ اس سلسلہ میں 1970 کے دہے میں اندرا گاندھی کا جو اثر و رسوخ تھا جس طرح انہیں ان کے حامی حد سے زیادہ چاہتے تھے ، وہ ان لوگوں میں ہیرو کا درجہ رکھتی تھی اور آج نریندر مودی کی شخصیت کے اطراف ہر چیز گھوم رہی ہے ۔ انہوں نے ا پنے حامیوں (مخصوص نظریات کے حامل) کی محبت کا جس طرح فائدہ اٹھایا اور خود کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا جو ان کے حامیوں کی نظر میں پارٹی سے بھی بالاتر ہے اندرا گاندھی اور مودی کی شخصیتوں اور ان کے اطر اف جب ہر چیز گھومنے لگی تو سارے ملک نے اور ساری دنیا نے دیکھا کہ جمہوریت کمزور ہوگئی، جمہوریت ا ور جمہوری اداروں پر تاپڑ توڑ حملے ہونے لگے ، ان کی اہمیت ایک طرح سے روبہ زوال ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن قائدین بار بار یہ الزام لگارہے ہیں کہ مودی حکومت میں جمہوری ادارے ا پنی آزادی کھوچکے ہیں ۔ اندرا گاندھی کے دور میں بھی اپوزیشن قائدین کا یہی کہنا ہوتا تھا کہ اندرا گاندھی نے اپنی آمرانہ روش کے ذ ریعہ جمہوریت کو کمزور کردیا ہے ۔ اگر آج امبیڈکر زندہ ہوتے تو یقیناً اس بات پر حیران نہیں ہوتے کہ ہمارے ملک میں صرف سیاستدانوں کی ہی ہیروز کی طرح پوجا نہیں کی جاتی بلکہ اس رجحان نے وسعت اختیار کرتے ہوئے کا میاب کر کٹرس ، فلم اداکاروں اور تاجرین و صنعت کاروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ چند سیاستدانوں کی طرح عوام کیلئے بھگوان سمجھے جانے لگے ہیں ہاں! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج اگر امبیڈکر اپنے چاہنے والوں کی جانب سے جس طرح ا ہیں (امبیڈکر) کو ایک ہیرو ایک بھگوان کی طرح ایک نجات دہندہ کی طرح پیش کیا جارہا ہے ، اسے بھی دیکھ کر نہ صرف حیران رہ جاتے بلکہ شرمندہ بھی ہوسکتے تھے ۔