معیشت بدحال ، حکومت سیاسی کامیابیوں میں مگن

   

رویش کمار

گزشتہ چار سال (2014-18) میں ہندوستان کے برآمدی شعبے میں اوسط شرح ترقی کیا رہی ہے؟ 0.2 فی صد۔ 2010 اور 2014ء کے درمیان عالمی برآمدات سالانہ 5.5 فی صد کی شرح پر بڑھ رہے تھے، پھر سال بہ سال انڈیا کے اکسپورٹس 9.2 فی صد کی شرح پر بڑھتے گئے۔ وہاں سے ہم گھٹتے ہوئے 0.2 فی صد پر آچکے ہیں۔ یہ میرا تجزیہ نہیں ہے۔ سنیل جین ایڈیٹر، فینانشل اکسپریس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین نے 2014-18 کے درمیان سالانہ 1.5 فی صد کی شرح پر بڑھوتری درج کرائی۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ویتنام اس شعبے میں تیزی سے اپنا مقام بنارہا ہے۔ ویتنام کی برآمدات سالانہ 13 فی صد کی شرح پر بڑھ رہی ہیں۔ 1990ء میں ویتنام جو کچھ ہندوستان کی برآمدت تھیں، اس کا محض 13 فی صد اکسپورٹ کرپایا تھا۔ آج ویتنام کی برآمدات ہندوستان کے اکسپورٹس کا 75 فی صد ہیں۔ ہندوستان کے مقابل ویتنام کافی چھوٹا ملک ہے۔ سنیل جین لکھتے ہیں کہ ویتنام برآمدات کے معاملے میں جلد ہی ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دے گا۔
جب چین نے اعلیٰ قدر کی اشیاء کے شعبے میں اپنا مقام بنانے کیلئے ٹکسٹائل سیکٹر پر توجہ گھٹا دینے کا فیصلہ کیا، تب بنگلہ دیش اور ویتنام تیزی سے آگے آئے تاکہ خلا کو پُر کرسکیں۔ اگر آپ نے بزنس کی نیوز پڑھی ہوگی تو ضرور نوٹ کیا ہوگا کہ کئی سال قبل مودی حکومت نے شعبۂ پارچہ جات کیلئے 6,000 کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا تھا۔ مگر ہندوستان کا ٹکسٹائل سیکٹر تاحال سنبھل نہیں پایا ہے۔ ٹکسٹائل ، روزگار فراہم کرنے والے شعبوں میں شامل رہا ہے۔ جون 2016ء میں پیاکیج کا اعلان کرتے ہوئے مودی کابینہ نے کہا تھا کہ اگلے تین برسوں میں یعنی 2019ء تک 1 کروڑ جابس ٹکسٹائل سیکٹر میں پیدا کئے جائیں گے اور 75,000 کروڑ روپئے کا سرمایہ مشغول کیا جائے گا۔ آپ کو حقیقت جاننے پر مایوسی کا احساس ہوگا۔

فینانشل اکسپریس نے ایک اور نیوز شائع کی ہے۔ اپریل تا جون کے پہلے سہ ماہی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلب ماند پڑچکی ہے اور نفع ’انڈا‘ (O) ہوچکا ہے۔ 2,179 کمپنیوں کے منافع میں 11.97 فی صد تک گراوٹ آئی ہے، کیونکہ فروخت میں صرف 5.87 فی صد کا اضافہ ہوا، جو معمولی ہے۔ اس کا اثر اشتہارات پر پڑے گا۔ اشتہارات میں کمی کے سبب ہر قسم کے چیانلوں میں تخفیف آرہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہو؟
چائنا کے موبائل مینوفیکچررز بین الاقوامی کشیدگیوں کے سبب کسی کم جوکھم والے علاقے کے متلاشی ہیں۔ اس کیلئے ویتنام تیار بیٹھا ہے۔ 2010ء سے انڈیا کے موبائل اکسپورٹس میں تیزی سے گراوٹ جاری ہے اور ویتنام کی برآمدات میں 21 گنا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں اسمارٹ فون کے بزنس کی قدر 300 بلین ڈالر ہے۔ اس کا 60 فی صد حصہ چین کے پاس ہے۔ ویتنام کا اس گلوبل اکسپورٹ میں حصہ بڑھ کر 10 فی صد ہوچکا ہے، جبکہ انڈیا کا حصہ قابل نظرانداز ہے۔ 2010ء میں ویتنام نے ہندوستان کے مقابل صرف 4 فی صد موبائل فون تیار کئے تھے۔ آج ویتنام کی کیا پوزیشن ہے اور ہندوستان کہاں پر ہے؟ اب ہندوستان میں زیادہ تر موبائل فونس تیار نہیں کئے جاتے، بلکہ جوڑے (assembling) جاتے ہیں۔ یہی رجحان رہا تو مستقبل میں کل پرزے درآمد ہوں گے اور پھر فون یہاں پر مشترکہ طور پر بنایا جائے گا۔ موبائل کے اجزاء کی امپورٹ خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس ویتنام میں 10 تا 20 فی صد ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 43.68 فی صد ہے۔
مودی حکومت معاشی محاذ پر ناکام حکومت ہے۔ یہ اس کا چھٹا سال ہے۔ ایسا کوئی بھی شعبہ نہیں جسے حکومت اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرسکے۔ صنعت ِ پارچہ جات کی حالت خراب ہے۔ آپ مشاہدہ کررہے ہوں گے کہ موبائل اور آٹوموبائل میں جمود ہے۔ بینکوں کے مسائل عروج پر ہیں۔ بے شک، مودی حکومت سیاسی طور پر کامیاب حکومت ہے۔ بے روزگاری جیسے مسائل پر اس کی آڑ میں چھپ گئے ہیں۔ نوٹ بندی جیسا بوگس اقدام بھی مودی حکومت کی سیاسی کامیابی میں پوشیدہ ہوگیا۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن ہار جانے کے بعد اپوزیشن کے کئی گوشے ’اپنے روزگار‘ کی تلاش میں بی جے پی کا رُخ کررہے ہیں۔ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ اگر اپنی سیاست کو بچانا ہو تو بی جے پی کی طرف چلے جائیں کیونکہ ’’عوام تو نوکریوں، پنشن اور بچتوں سے محروم ہونے پر ہی بی جے پی کو ووٹ دیں گے!‘‘ میں نے خود دیکھا اور سنا ہے کہ عوام مودی حکومت کے بارے میں بات تک نہیں کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے جابس کھوچکے ہیں اور کوئی متبادل حاصل نہیں ہورہا ہے۔ صرف کوئی ’لیڈر‘ ہی ایسی سیاسی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا، بے روزگاری کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے!
نوٹ : کیا آپ کو ہندی اخبارات میں اس طرح کی خبریں ملتی ہیں؟ آپ چاہے کسی کو ووٹ دیں، لیکن ان خراب ہندی اخبارات کو پڑھنا جلد از جلد ترک کردیں۔ وہ آپ کو آگے لے جانے کی قابلیت سے محروم ہیں۔ اُن کے ایڈیٹرز اب ’حضور‘ کا حصہ بن چکے ہیں۔
معلومات حاصل کرنا ہوں تو کچھ زحمت اٹھائیں، اِدھر اُدھر گھوم پھر کر دیکھیں، کیونکہ صحیح مواد گھٹتا جارہا ہے۔ کہیں کہیں آپ کے پاس کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ بعض ہندی اخبارات اور چیانلوں سے چوکنا رہیں۔ اُن کے ذریعے ہندوستان کی جمہوریت برباد کی جارہی ہے۔ آج سے دس سال بعد شاید آپ کو اس آرٹیکل پڑھنے کے بعد رونا پڑے گا۔ لہٰذا، آج ہی بچاؤ کے کام کرلیں۔٭
[email protected]