پی چدمبرم
آیا ہندوستانی معیشت اپنی عظمت رفتہ بحال کرنے کی جانب گامزن ہے؟ یہ ایک بحث کا معاملہ ہے لیکن مرکزی حکومت اس این ایس او پر خوشیاں منا رہی ہے جس میں تیسرے سہ ماہی کے دوران 0.4 فیصد معاشی نمو کا تخمینہ کیا گیا ہے۔ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اعداد و شمار میں ضرور غلطی ہوگی۔ 0.4 فیصد کا مطلب صفر فیصد یا 0.8 فیصد ہوسکتا ہے۔ حکومت این ایس او کو لے کر خوش فہمی کا شکار ہے اور اس نے اس کا اظہار اپنے پریس ریلیز میں بھی کیا ہے۔ ہم ہندوستانی یہی چاہتے ہیں کہ تباہ معیشت بہتری کی طرف رواں دواں ہو اور بہتر و مستحکم معاشی حالت کے استحکام کا احیاء ہو۔ کم از کم سالانہ قومی مجموعی پیداوار (2018-19) کے لئے 140.03 لاکھ کروڑ روپے یا سال 2019-20 کے لئے 145.69 لاکھ کروڑ روپے مقرر کیا گیا ہے یا اس کا تخمینہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ دو سال ایسے ہیں جس میں شرح نمو بڑی تیزی سے زوال کا شکار ہوئی۔ اس کے باوجود ہم نے بالترتیب 6.1 فیصد اور 4.0 فیصد مثبت نمو حاصل کیا۔ آئندہ سال جو 2020-21 ہے اگر دیکھا جائے تو ملک اُس مالی سال میں کورونا وائرس کی عالمی وباء سے شدید متاثر رہا۔ دوسری طرف ملک میں معیشت سے متعلق نااہلی اور ناقص پالیسیوں نے بھی زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا اس طرح کورونا وائرس کی وباء اور ناقص نظم معاشی انحطاط کا باعث بنے۔ این ایس او کے مطابق 40 سال میں پہلی مرتبہ مالی سال مارچ 2021 میں 134.09 لاکھ کروڑ جی ڈی پی کے ساتھ اختتام کو پہنچے گا جو بدترین ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت 0.4 فیصد نمو کا جشن منا رہی ہے لیکن تیسرے سہ ماہی میں 0.4 فیصد شرح نمو ایک عارضی راحت ہے اور فکر کی بات یہ ہے کہ اس میں سال 2020-21 کے لئے کئی تخفیف کی گئی اور ان ہی تخفیف کی بنیاد پر یہ شرح نمو ظاہر کی گئی۔ جو نمو حکومت نے ظاہر کیا ہے وہ پوری طرح زراعت، جنگلات اور سمکیات کی جانب سے درج کروائی گئی 3.9 فیصد اور شعبہ تعمیرات کی جانب سے درج کروائی گئی 6.2 فیصد نمو سے منصوب ہے، جبکہ کانکنی، مینوفیکچرنگ، ٹریڈ، ہوٹلوں اور حمل و نقل کے شعبوں میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر ہم گراس فکسڈ کیپٹل فارمیشن (GFCF) کا جو فی الوقت 41,44,957 کروڑ ہے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سال 2018-29 اور سال 2019-20 کی بہ نسبت بہت کم ہے۔ اگر جی ڈی پی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ 30.9 فیصد ہے۔ تیسرا جو اہم نکتہ راقم الحروف بیان کررہا ہے وہ یہ ہے کہ برآمدات 25,58,162 کروڑ روپے اور درآمدات 27,33,144 کروڑ روپے لاگتی بتائی گئی ہیں۔ درآمدات اور برآمدات دونوں پچھلے دو برسوں کی بہ نسبت بہت کم ہے۔ جی ڈی پی کے متناسب دیکھا جائے تو یہ 19.4 فیصد اور 20.4 فیصد ہوتے ہیں۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ فی کس آمدنی سے متعلق جی ڈی پی ایک لاکھ سے گر کر 98,928 ہوگئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہیکہ ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک غریب ہوگیا ہے (سوائے ان ارب پتیوں کے جن کی تعداد 2020 میں بڑھ کر 40 تک ہوگئی)۔ لاکھوں کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے اور جو لوگ پہلے ہی سے خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے تھے بے سہارا ہوگئے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقروض ہندوستانیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا کیونکہ موجودہ معاشی حالات نے لوگوں کو اس قدر مجبور کردیا کہ وہ قرضہ حاصل کریں۔ جہاں تک معاشی انحطاط اور کورونا وائرس کی وباء کا سوال ہے اس کے اثرات معیشت کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبہ پر مرتب ہوئے اور ان کا سلسلہ جاری ہے۔ معاشی انحطاط اور کورونا وائرس کی وباء نے خاص طور پر تعلیم، تغذیہ اور صحت کے شعبہ کو بہت متاثر کیا باالفاظ دیگر ان دو رجحانات میں عوام کی صحت، عوام کی تعلیم اور غذا کو بری طرح متاثر کرکے چھوڑا اور اس کا زیادہ سنگین اثر غریبوں اور ان کے بچوں پر پڑا ہے۔ جہاں تک ریزرو بینک آف انڈیا کا معاملہ ہے ہمارے ملک کی اس مرکزی بینک نے قومی معاشی صورتحال کا بڑے صاف صاف انداز میں جائزہ لیا ہے۔ حالانکہ حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں اور بجٹ پیش کیا ہے اس پر تنقیدیں کی جارہی ہیں لیکن حکومت ہے کہ ان تنقیدوں کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ اس موضوع پر فروری 2021 کے بلیٹن میں آرٹیکل شائع ہوچکا ہے جس میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج اس بارے میں بہت ہی کم شک و شبہ ہے کہ کھپت کے احیاء کی بنیاد پر معاشی حالت بہتری کی جانب رواں دواں ہے لیکن ایسا بھی لگتا ہیکہ اس قسم کا احیاء کھوکھلا ہے اور زیادہ دنوں تک چلنے والے نہیں۔ اصل کلید یہ ہے کہ سرمایہ کاری کی بھوک کو تیز کیا جائے ، ایک نیا جوش جذبہ پیدا کیا جائے، ترقی کے انجن کو تیزرفتار بنایا جائے لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ صرف خانگی یا نجی سرمایہ کاری کسی عمل سے قاصر ہ ہے جبکہ یہی لگ رہا ہے کہ وقت کی دھاریں نجی سرمایہ کاری کے مخالف چل رہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نجی سرمایہ کاری نہ ہو رہی ہو تو ایسے میں ہندوستانی صنعتی شعبہ اور صنعت کار کیا ہاتھ ملتے رہیں گے؟ کیا ان کی صنعتی اکائیوں میں پیداوار ٹھپ ہو کر رہ جائے گی؟ حکومت کو خوشیاں منانی کی بجائے خانگی شعبہ میں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا کرنے چاہئے اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ چوتھی سہ ماہی میں معاشی نمو کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح سال بھر میں معاشی نمو کا تخمینہ کیا کیا جاتا ہے؟ ہماری حکومت کو صحت اور تعلیم کے شعبوں کے عشاریوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
آزادی ہو رہی ہے غائب
ایک ایسے وقت جبکہ معاشی صورتحال نے سب کو فکرمند کردیا ہے دوسرے محاذ پر ایک اور بری خبر ہے۔ آزادی اور جمہوریت کے معاملہ میں جو درجہ بندی ہوتی ہے اس درجہ بندی میں ہندوستان کا مقام گر گیا ہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ 180 ممالک میں ہمارے ملک کا مقام 142 ہوگیا ہے جبکہ ہیومن فریڈم انڈکس (ایچ ایف آئی) کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 162 ممالک میں ہمارے ملک کا نمبر 111 ہے۔ امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاوس نے حال ہی میں اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس نے ہندوستان کے بارے میں کہا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کا رجحان کم ہوا ہے۔ اس معاملہ میں پہلے ہندوستان کا اسکور 100 میں سے 71 تھا جو گھٹ کر 100 میں سے 67 ہوگیا۔ اس طرح مذکورہ امریکی تھنک ٹینک نے ہندوستان کو جزوی آزادی کے زمرہ میں رکھا ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر مختلف تنظیموں کی جانب سے ہمارے ملک کو دیئے جانے والے نمبرات یا درجہ بندی پر غور کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خاص طور پر درجہ یا نمبر اہم نہیں ہوتا بلکہ جو چیز اہم ہوتی ہے وہ سوچ و فکر میں گراوٹ اور اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر ہونے والے اثرات ہیں۔ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے میڈیا نے خود کو حکمراں جماعت کے ہاتھوں سونپ نہیں دیا؟ اور ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا حصہ حکومت کے لئے انتہائی قدیم، ایچ ایم وی ریکارڈ پلیر کی طرح نہیں بنا ہے؟ کیا اس بات سے بھی انکار کیا جاسکتا ہے کہ خواتین، مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں، ایس سی ایس ٹیز کے خلاف جرائم میں اضافہ نہیں ہوا (این سی آر بی ڈیٹا) اور اس قسم کے جرائم کو حکمراں جماعت نظرانداز نہیں کررہی ہے۔ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردی سے لے کر کورونا وائرس پھیلانے تک ہر چیز کے لئے بَلی کا بکرا نہیں بنایا جارہا ہے؟ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت آمرانہ اقدامات کررہی ہے اور مطلق العنان بن گئی ہے؟ فوج داری قوانین کا بیجا استعمال کررہی ہے؟ عوام پر قوانین محاصل اور محاصل سے متعلق نظم و نسق تھونپا جارہا ہے؟ پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں جابرانہ اقدامات کررہی ہیں؟ اور معاشی پالیسیاں ایسی بنائی جارہی ہیں جس سے دولت مندوں کو فائدہ اور غریبوں کو نقصان ہو۔ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں خوف نہیں پھیلا جارہا ہے؟ تازہ ترین واقعہ میں جو دارالحکومت دہلی میں پیش آیا ایک ایسی سازش رچی گئی کہ کس طرح حکومت کے خلاف لکھنے والوں اور جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے حالانکہ جھوٹی اور فرضی خبریں کون پھیلا رہا ہے اور اس طرح کی خبریں پھیلانے والوں کی سرپرستی کون کررہا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ ایک طرف گرتی معیشت اور دوسری طرف زوال سے دوچار آزادی ہے اور جب یہ دونوں ملتے ہیں تو ان کا مرکب بہت دھماکو ہوتا ہے۔ اقتصادی اور آزادی سے متعلق زوال و تباہی کو روکنا بہت ضروری ہے۔ پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کے کسانوں نے مزاحمت کی راہ کا انتخاب کیا جبکہ آسام، مغربی بنگال، کیوالا، پڈوچیری اور تاملناڈو کے رائے دہندوں کے سامنے ایک اور راہ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟