معیشت ہنوز خراب حالت میں

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس
قومی دفتر برائے اعداد و شمار نے 31 مئی 2022ء کو قومی آمدنی کے عبوری تخمینے اور قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے سہ ماہی تخمینے جاری کئے۔ اس موقع پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے اقتصادی مشیر اعلیٰ محتاط انداز میں پرامید دکھائی دے رہے تھے۔ وہ وہی جانتے ہیں جیسے کہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات جانتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت ہنوز خطرہ سے باہر نہیں آئی۔
بد اور بدتر
ہماری معیشت کیلئے بری خبر یہ ہے کہ 31 مارچ 2022ء کو منتقل قیمتوں پر معیشت کا حجم (147.36 لاکھ کروڑ روپئے) تقریباً ویسے ہی تھا جیسے 31 مارچ 2000ء کو (145.16لاکھ کروڑ روپئے) تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ہی مقام پر کھڑے چل رہے ہیں، تاہم دو برسوں میں اوسط فی کس آمدنی میں گراوٹ کے باعث انفرادی شہری غریب ہوئے ہیں۔ دو سال قبل فی کس اوسط آمدنی 1,08,247 روپئے تھی جو گرکر اب 1,07,760 روپئے ہوگئی۔
دوسری بُری خبر یہ ہے کہ سال 2021-22ء میں قومی مجموعی پیداوار کے سہ ماہی نمو کا گراف گرتا جارہا ہے۔ چوتھے سہ ماہی کے اعداد 20.1، 8.4، 5.4 اور 4.1% ہے۔ پیداوار کے لحاظ سے (قدر میں اضافہ) کوئی تیز یا زیادہ اضافہ نہیں ہے۔ ماقبل کورونا وباء سال 2019-20ء کے چوتھے سہ ماہی میں قومی مجموعی پیداوار 38,21,081 کروڑ روپئے تھی اور ہم نے صرف 2021-22 کی چوتھے سہ ماہی میں اس تعداد سے تجاوز کیا جس نے 40,78,025 کروڑ روپئے درج کئے۔
یہ باعث فخر نہیں کہ 8.7% نمو کے ساتھ ہندوستان سب سے تیزی ترقی کرنے والی معیشت ہے۔ مہنگائی بیروزگاری خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے لوگوں کی تعداد بھوک کا پھیلاؤ اور صحت کے اشاریوں میں گراوٹ اور سیکھنے کے ذرائع و وسائل میں کمی کے پیش نظر فخر کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ ہم نے ترقی کی شرح 8.7% مقرر کررکھی ہے۔ یہ صرف امید ہے جبکہ معاشی ترقی کو مہنگائی ، بیروزگاری ، بھوک و افلاس اور شعبہ صحت کی خراب حالت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ سب سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ گزشتہ سال یہ 6.6 منفی ترقی کی پشت پر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک چین نے سال 2021ء میں 8.1% سے ترقی کی تو اس نے12 ماہ میں اپنی قومی مجموعی پیداوار میں 2600 ارب ڈالرس کا اضافہ کیا (موجودہ قدر و قیمت پر) جبکہ 2021-22ء میں 8.7% کی شرح سے ترقی کرنے والے ہندوستان نے (جیسا کہ دعوے کئے جارہے ہیں) ایک سال یا 12 ماہ میں قومی مجموعی پیداوار میں صرف 500 ارب ڈالرس کا اضافہ کیا (موجودہ قدر و قیمتوں پر)
ایک بار جب ہم پرسکون ہوجائیں تو ہم 2022-23ء اور اس کے بعد کے امکانات کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ خودستائی اور صرف اپنے آپ میں مگن رہتے ہوئے ہم نے یہ فراموش کردیا کہ باہر بھی ایک دنیا ہے۔ ہمیں دنیا کی منڈیوں (مارکٹوں) مصنوعات سرمایہ، ٹیکنالوجی اور ایک نئی ایجادات و اختراعات کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج دنیا کی معیشتیں دباؤ کا شکار ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور طلب کمزور پڑتی جارہی ہے۔ چین میں بھی قومی مجموعی پیداوار دباؤ کا شکار ہوگی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ کورونا کے باعث وہاں بار بار لاک ڈاؤن نافذ کیا جاتا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گیس کی تیزی سے بڑھتی قیمتوں نے یوروپی عوام کی قوت ِ خرید کو گھٹا دیا ہے۔
آر بی آئی کی مالیاتی پالیسی کمیٹی کے مطابق (4 مئی 2022ء ) عالمی مالیاتی ادارے نے 2022ء میں عالمی نمو کا جائزہ لیا۔ اس نے نوٹ کیا کہ یہ نمو 4.4% سے 3.6% ہوگیا ہے جبکہ عالمی تجارتی تنظیم نے عالمی تجارتی نمو کی شرح کو 4.7% سے گھٹاکر 3.0% کردیا ہے۔ جہاں تک عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کا سوال ہے، اس نے ترقی یافتہ معیشتوں میں 5.7% افراط اور ترقی پذیر ملکوں میں 8.7% مہنگائی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ ایم پی سی نے تباہ کن بیرونی ماحول، اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں، اس میں مسلسل رکاوٹوں اور ترقی یافتہ معیشتوں میں مالیاتی پالیسیوں کو معمول پر لانے سے اُتار چڑھاؤ کے پھیلاؤ کی نشاندہی کی ہے۔ مجھے شک ہے کہ حکومت میں شامل کوئی اس مشورہ کو سنے گا اور اس پر عمل کرے گا۔
اچھی تشخیص، علاج ندارد
ریزرو بینک آف انڈیا کی ماہانہ رپورٹ میں معیشت کی بحالی اور معاشی کیلئے پانچ اہم ترین عناصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔
٭ نجی سرمایہ کاری
٭ حکومت کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ مصارف
٭ بہتر بنیادی سہولتیں
٭ کم اور مستحکم افراطِ زر
٭ مائیکرو اکنامک استحکام
ان پانچ عناصر میں حکومت کا صرف سرمایہ مصارف پر کنٹرول ہے، لیکن رواں سال سرمایہ کاری کے کاموں میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی اس کی صلاحیت بڑی سختی کے ساتھ محدود ہوجائے گی کیونکہ بجٹ کے بعد کے اقدامات جیسے فیول کے محاصل میں کٹوتی ، سبسڈی میں اضافہ اور بہبودیٔ و فلاحی مصارف میں سے جب تک سپلائی میں رکاوٹیں اور غیراستعمال گنجائش موجود ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں تیزی نہیں آئے گی جہاں تک غیرملکی یا بیرونی سرمایہ کاروں کا تعلق ہے۔ Cairn، Hutchison، Harley-Davidson، جنرل موٹرس، فورڈ، ہالسم، سٹی بینک، بارکلے، آر بی ایس اور میٹروکیش اینڈ کپری جیسے بڑے بڑے بیرونی سرمایہ کار ہندوستان کو چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑ رہے ہیں۔ ہم نے اپنی بنیادی سہولتوں میں مقدار کو اہمیت دی ہے، معیار کو نہیں اور مودی حکومت کا ماضی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ مہنگائی اور مائیکرو اکنامک استحکام کے بارے میں بے خبر ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ایک اقتصادی طاقت نہیں بن سکتا جب تک اس کی لیبر فورس کی شراکت کی شرح 40% رہے کیونکہ ہندوستان میں کام کرنے والی عمر کے حامل افرادی طاقت کی آبادی یا تو کام نہیں کررہی ہے یا کام کی تلاش نہیں کررہی ہے اور زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے باوجود خواتین کا LFPR مایوس کن 9.4% ہے۔ اس کے علاوہ بیروزگاری کی موجودہ شرح 7.1% ہے۔ ہم ایک بیمار معیشت ہے۔ ہم نے اس کی بہترین تشخیص کی ہے۔ فارمیسی میں ادویات بھی ہیں، لیکن جو ڈاکٹرس خدمات پر مامور ہیں، وہ یا تو جعلی ڈاکٹر ہیں یا پھر انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ مریض آہستہ آہستہ دردناک موت مررہا ہے۔