مغربی ایشیا میں چین ۔ سعودی نیوکلیر معاہدہ سے اسلحہ کی دوڑ کا آغاز

   

عادل رشید
ایک ایسے وقت جبکہ دنیا توقع کررہی تھی کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں شامل ہو جائے گا۔ برطانیہ کے ایک نامور روزنامہ نے خبر پر مبنی ایک کہانی شائع کی ہے کیونکہ اسرائیل نے سعودی عرب کے نیوکلیر پروگرام کے بارے میں اندیشے ظاہر کئے ہیں۔
17 ستمبر 2020 کو روزنامہ گارجین میں ایک مضمون شائع ہوا جس کے بموجب چینی ماہرین اغذیات نے سعودی عرب کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے جو اس کے نیوکلیر توانائی تعاون معاہدہ کا ایک حصہ ہے جس میں ان مقامات کے نام دیئے گئے ہیں جہاں مملکت سعودی عرب میں خام دھات یورانیم کے کثیر ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی بناء پر اسے نیوکلیر ایندھن کے لئے اندرون ملک تیار کئے جانے والے ایک نیوکلیر ایندھن کا درجہ دیا جاسکے گا۔ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں بھی شامل ہے جس میں سعودی عرب کو چین کے تعاون سے ایک کارخانہ تیار کرنے کی اطلاع دی گئی ہے تاکہ خام دھات پِیلی یورانیم سے نیوکلیر ایندھن حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ریاض نے اپنا نیوکلیر پروگرام بالکل پرامن ہونے کا عہد کیا ہے لیکن خبر کے بموجب پتہ چلتا ہے کہ یہ کارخانہ مشرقی تاجروں نے ایران کے قریب کے علاقہ میں چینی کمپنیوں کی مدد سے سعودی شہر اولا میں تعمیر کیا ہے جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے۔
چین کے مقاصد سعودی عرب کے نیوکلیر پروگرام میں تعاون کرنے سے مشتبہ ہوگئے ہیں۔ حالیہ چین کی جانب سے سعودی عرب نیوکلیر صلاحیتیں ایک ایسے وقت خبروں میں آگئی ہیں جبکہ ایران (بعض خبروں کے بموجب 400 بلین امریکی ڈالر مالیتی شراکت داری چین کے ساتھ کررہا ہے) اور ایران پر امریکہ نے بڑے پیمانے پر تحدیدات عائد کی ہیں جن میں اسلحہ کی فروخت بھی شامل ہے۔

چین اچھی طرح اپنی معاشی اور جغرافی ۔ سیاسی حالات کی وجہ سے اچھی طرح واقف ہے کہ مغربی ایشیا کے سائے میں 2000 کی دہائی میں جنگ کا خطرہ ہے اور یہ چین کے مفاد میں ہوگا کہ مغربی ایشیا ایک انتشار زدہ علاقہ قرار دیا جائے۔ دفاعی تعاون سے جو دونوں حریف ممالک (سعودی عرب اور ایران) کے ساتھ بیک وقت ہونے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین ایک نیا بحران اس تغیر پذیر علاقہ میں پیدا کررہا ہے اور یہ اس کے اپنے ایک بڑے کھیل کا حصہ ہوگا۔
ایران کی تائید کرنے سے یورانیم کی افزودگی ممکن ہے اور اس سے سعودی عرب کو مدد ملے گی کہ وہ ایک احتراق پذیر ماددہ حاصل کرسکے۔ چین ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو خلیج کے کٹر حریفوں کے درمیان ان کو ہتھیاروں سے آراستہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے اور اس طرح مغربی ایشیا میں نیوکلیر اسلحہ کی دوڑ کے امکانات میں اضافہ کررہا ہے تاکہ چینی فوج کبھی بھی ہند ۔ بحرالکاہل کے علاقہ میں جو چین کے عقب میں واقع ہے تعینات نہ کرسکے۔

سعودی پِیلی خام دھات کی اینٹیں
حالانکہ اسرائیل نے سرکاری طور پر بیان دیا ہے کہ سعودی عرب کا نیوکلیر پروگرام سے متعلق خبروں سے جن کا جاری کرنے والا اسرائیل کا خبررساں وفاق بحیثیت مبصر کہتا ہے کہ ’’سعودی نیوکلیر صلاحیت جو پرامن مقاصد رکھتی ہے سعودی عرب کو نیوکلیر فوجی صلاحیت کا حامل بناسکتی ہے جس کی اسرائیل کو انتہائی تشویش ہے‘‘۔
ایک اور اسرائیلی مبصر کو اندیشہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے امریکہ سے عصری ہتھیار جیسے F-35 جنگجو جیٹ طیارے، ریپر ڈرون طیارے اور برقی جنگی طیارے خریدنے کی راہ ہموار ہوگی۔ دیگر مبصرین نے بھی اسی انداز کے اندیشے ظاہر کئے ہیں۔
چین کا انتخاب
سعودی عرب نے اپنے نیوکلیر پروگرام میں چین سے تعاون حاصل کرنے کا ارادہ اس لئے کیا ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری میں بھی اس کی صلاحیت کے بارے میں اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں علاوہ ازیں سعودی عرب ان امکانات پر بھی ناراص ہے کہ امریکہ منصوبہ بندی کررہا ہے کہ خلیج کے علاقہ میں اپنی بحریہ کی موجودگی میں تخفیف کردے۔ امریکہ ، ہند ۔ بحرالکاہل کے علاقہ سے بھی اپنے دو فوجی اسکواڈرن واپس طلب کررہا ہے۔
اس لئے سعودی عرب مختلف غیر ملکی شراکت داروں کو تلاش کررہا ہے اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ کررہا ہے۔ ہفتہ وار امریکی رسالہ نیوز ویک نے خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے CSS-5 وسط مسافتی بین براعظمی میزائل چین سے 2007 میں حاصل کئے ہیں۔

چین کی ’بحران کی کمان‘
یہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ چین کی مشتبہ تاریخ سے نیوکلیر ٹکنالوجی مغربی ایشیا کے ممالک کو نیوکلیر ٹکنالوجی سربراہ کرنے سے بھرپور رہی ہے۔ 1983 میں چین نے کوشش کی تھی کہ الجیریا کے ساتھ ایک نیوکلیر ری ایکٹر قائم کرنے کا معاہدہ ہو جائے۔ واشنگٹن ٹائمس کی خبر کے بموجب چین پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ الجیریا کی نیوکلیر ہتھیاروں کی تیاری میں مدد کررہا ہے۔ 1991 میں آخر کار الجیریا نے اپنا نیوکلیر ری ایکٹر IAEA کے حفاظتی قواعد کے مطابق قائم کیا۔
اب اس بات کا اندیشہ ہے کہ سعودی عرب نیوکلیر صلاحیت حاصل کرچکا ہے اور وہ اب علاقائی طاقتوں جیسے ترکی اور مصر کے ساتھ متحد ہوکر علاقائی نیوکلیر ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز کرے گا۔ ممکن ہے کہ اس سے تنازعات کے مرکز مغربی ایشیا کا علاقہ مزید تغیر پذیر ہو جائے۔

گزشتہ سال صدر ترکی رجب طیب اردغان نے کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے لئے انقرہ کو اپنے نیوکلیر ہتھیاروں کی خریداری سے روکنا بین الاقوامی برادری کے لئے ناقابل قبول ہوگا حالانکہ وہ یہ کہتے کہتے رک گئے کہ کیا ترکی انہیں حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر نہیں تو اسے نیوکلیر وار ہیڈس کا تذکرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جیسا کہ دیگر کیا کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ میں اسے قبول نہیں کروں گا ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر گزشتہ سال ستمبر میں اپنی پارٹی کے ارکان سے اس بیان کا سلسلہ میں مشورہ کیا تھا۔
چین کی کارستانیاں نیوکلیر ٹکنالوجی کے پھیلاؤ کا باعث ہیں وہ مغربی ایشیا کے ایسے ممالک کو نیوکلیر ٹکنالوجی فراہم کررہا ہے جو نہ صرف علاقہ میں نیوکلیر ہتھیاروں کی دوڑ کا سبب بنیں گے بلکہ اپنے نیوکلیر اثاثہ کو بنیاد پرست غیر سرکاری عناصر کے ہاتھوں میں پہنچادیں گے جیسا کہ عالمی سوپر پاور بننے کی کوشش میں چین کو واضح طور پر اس بات کی ضرورت ہے کہ زیادہ پختہ کاری کے ساتھ اور بالغ نظری کے ساتھ ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرے تاکہ بین الاقوامی امن اور صیانت کو سرفراز کیا جاسکے۔