مغربی بنگال ‘ بی جے پی اور ممتابنرجی

   

Ferty9 Clinic

بہار آخری پڑاؤ نہیں

ابو دانش
بہار اسمبلی انتخابات میں شاندار اور توقعات سے بہت بڑی کامیابی نے بی جے پی کے حوصلے بلند کردئے ہیں۔ بی جے پی نے اب مستقبل کے منصوبے بنانے شروع کردئے ہیں اور ان کو باریک بینی سے غور و فکر کے ذریعہ تیار کیا جا رہا ہے۔ بہار میں حالانکہ بی جے پی کو تنہا کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے اور اسے این ڈی اے اتحاد کے ساتھ اقتدار حاصل ہوا ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار میں بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اس کے ٹھیک پیچھے نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ ہے ۔ اس کامیابی نے تاہم بی جے پی کے حوصلے کافی بلند کردئے ہیں اور بہار میں این ڈی اے اقتدار کو بچانے کے بعد بی جے پی اب ان دوسری ریاستوں پر توجہ مرکوز کرنے لگی ہے جہاں اپوزیشن کی حکومتیں ہیں ۔ بی جے پی کے سیاسی راڈار پر سب سے پہلا نشانہ مغربی بنگال ہے ۔ بنگال میں بی جے پی گذشتہ تین معیادوں سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ گذشتہ دو مرتبہ کے اسمبلی انتخابات میں تو پوری طاقت جھونک کر مقابلہ کیا گیا تھا اس کے باوجود بی جے پی کو ریاست میں اقتدار حاصل نہیں ہوا ہے تاہم اب آئندہ سال کے انتخابات کیلئے بی جے پی ابھی سے کمر کس رہی ہے ۔ بنگال کو جیتنے کیلئے منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور نفسیاتی دباؤ بنانے کی حکمت عملی پر ابھی سے عمل بھی شروع ہوچکا ہے ۔ بی جے پی کے مستقبل کے منصوبوں میں بنگال میں کامیابی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پارٹی سرگرم ہوچکی ہے ۔
بی جے پی لوک سبھا کے ساتھ راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے اور اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کے جو اہمیت کے حامل منصوبے ہیں انہیں قانونی شکل دی جائے اور پھر پارلیمنٹ سے قوانین کی منظوری کے بعد ان کو سارے ملک میں نافذ کیا جائے ۔ بی جے پی یکساں سیول کوڈ نافذ کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کے منصوبوں میں این آر سی پر عمل بھی شامل ہے ۔ حالانکہ یہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ ایس آئی آر کے عمل کے ذریعہ مرکزی حکومت در اصل این آر سی پر عمل کر رہی ہے ۔ تاہم یہ باضابطہ این آر سی کا عمل نہیں ہے اور بی جے پی این آر سی پر عمل کرنا ہی چاہتی ہے ۔ بی جے پی کے عزائم میں آر ایس ایس کے منصوبے بھی شامل ہیں جن کو عملی شکل دی جانی ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کی اکثریت ہو ۔ حلیف جماعتوں کی تو ویسے بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ گئی ہے کیونکہ بی جے پی کے ساتھ جو حلیف جماعتیں ہیں وہ محض اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جب راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہو جائے گی تب وہ اپنے حقیقی منصوبوں کو عملی شکل دینے کا آغاز کرے گی ۔ اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریاستوں پر توجہ مرکوز کی جانے لگی ہے جہاں سے راجیہ سبھا کے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے ۔
ملک میں بی جے پی کے کٹر ناقدین اور مخالفین میں ممتابنرجی سر فہرست قائدین میں شمار کی جاتی ہیں۔ بی جے پی کے تمام منصوبوں اور اقدامات کی کھل کر مخالفت کرنے میں ممتابنرجی پیش پیش رہتی ہیں۔ وہ مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے میں دبا ہوا لہجہ یا نرم الفاظ استعمال نہیں کرتیں بلکہ کھل کر اور پوری سختی کے ساتھ بی جے پی کو نشانہ بناتی ہیں۔ ممتابنرجی کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ بہار کی کامیابی کے بعد بی جے پی بنگال پر ساری توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔ ملک کی جن 12 ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں ایس آئی آر کا عمل شروع کیا گیا ہے ان میں بنگال بھی شامل ہے ۔ بنگال کی سیاست ان دنوں ایس آئی آر کے عمل کی وجہ سے گرم ہے ۔ ممتابنرجی اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت کو لگاتار تنقیدوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگر ممتابنرجی کو نقصان پہونچانے کی کوشش کی جائے گی تو سارے ہندوستان میں بی جے پی کو ہلا کر رکھ دیا جائے گا ۔ اس کے علاوہ ممتا کا ایک اور ریمارک اہمیت کا حامل ہے اور قابل غور بھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی بنگال میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے گجرات میں شکست کو قبول کرسکتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انتخابی عمل پوری طرح سے بی جے پی کے ہاتھ میں یہ اور وہ جہاں چاہے جو چاہے نتائج لا سکتی ہے ۔ یہ ریمارک جمہوری عمل کیلئے ایک تشویش کی بات ہے ۔ اگر اس طرح سے انتخابات اور اس کے نتائج پہلے سے طئے شدہ ہوں تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا جمہوری عمل ہی داغدار ہو کر رہ جائے گا ۔
انتخابی عمل کی غیرجانبداری ایک الگ موضوع ہے تاہم بنگال کی اگر بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی جارحانہ تیور کے ساتھ منصوبے بنانے میں مصروف ہوگئی ہے اور وہ بہار کے نتائج کو بنگال میں دہرانے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی ۔ وہ ہر ہتھکنڈہ اختیار کرسکتی ہے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ اس حقیقت سے سارا ملک واقف ہے کہ انتخابات میں کسی بھی مسئلہ یا موضوع کا استحصال کرنا بی جے پی کی مہارت بن گئی ہے ۔ ممتابنرجی سارے بنگال میں تن تنہا بی جے پی کے مقابلہ کیلئے ابھی سے میدان میں کو د پڑی ہیں۔ وہ بی جے پی کے ہر ہتھکنڈے اور ہر حربے کا موثر جواب دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی عوام کے موڈ پر اپنی گرفت بنائے رکھنے کیلئے بھی وہ اقدامات کر رہی ہیں تاہم یکے بعد دیگر مسائل پیدا کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے کی بی جے پی کی کوششوں میں بھی کوئی کسر باقی نہیں ہے ۔ ممتا بنرجی جہاں ریاست کے عوام پر اپنی گرفت رکھتی ہیں وہیں وہ انتظامیہ کو بھی ڈھیل دینے تیار نہیں ہیں اور وہ کسی بھی طرح کی صورتحال سے موثر ڈھنگ سے نمٹنے کی اپنے طور پر کوششیں ضرور کر رہی ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ آیا ممتابنرجی اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجائیں گی ؟ ۔ کیا ممتابنرجی کے مقابلہ میں بی جے پی کیلئے بنگال کی کامیابی ’’ دلی ۔ ہنوز دور است ‘‘ والی بات ہی ہوگی ۔ موجودہ ماحول اور صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے عزائم اور تیور جارحانہ ضرور ہیں لیکن ممتابنرجی بھی کمزور نہیں ہیں اور بی جے پی کیلئے بنگال کی کامیابی بہار کی طرح آسان نہیں ہوسکتی ۔ اس کے کئی عوامل اور عنصر ہیں جن کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگال کے انتخابات میں ممتابنرجی کا ساتھ دینے کیلئے ملک کی سبھی سکیولر اور مخالف بی جے پی جماعتوں کو ایک ہونے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح کی کوشش بہار میں بھی کی گئی تھی تاہم اس حد تک نہیں کی گئی جتنی کی جانی چاہئے تھی ۔ بہار میں جو کچھ بھی عوامل رہے ہوں اب ان پر غور کرنے یا بحث کرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی اہمیت ہے کیونکہ اب بہار ایک بار پھر این ڈی اے کی جھولی میں چلا گیا ہے ۔ اب اصل توجہ مغربی بنگال پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور اسی کیلئے ایک ایسی موثر اور جامع حکمت عملی بنائی جانی چاہئے جو بی جے پی کے طلسم کو توڑ سکے ۔ اس کی انتخابی کامیابیوں کا سلسلہ مزید دراز ہونے سے روک سکے اور اس کی چالبازیوں کو بے اثر کرسکے ۔ ایسا کرنا نہ صرف بنگال میں ممتابنرجی کے اقتدار کو بچانے کیلئے ضروری ہے بلکہ یہ ملک کے مستقبل کو بچانے کیلئے ضروری ہے ۔ ملک میں سکیولرازم کو بچانے کیلئے ضروری ہے ۔ ملک میں دستور کو بچانے کیلئے ضروری ہے اور ملک کی جمہوریت کو محفوظ رکھنے اور اسے داغدار ہونے سے بچانے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے ۔
بہار میں اصل مقابلہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے درمیان ہی ہوگا ۔ کمیونسٹ جماعتوں کا حلقہ اثر بنگال میں عملا ختم ہوچکا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کمیونسٹ جماعتوں نے ترنمول کی مخالفت میں بنگال میں بی جے پی کو اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا تھا لیکن اب وہ خود اپنے قدم جمانے میں لڑکھڑا رہے ہیں اور بنگال کی سیاست سے کمیونسٹوں کا عملا صفایا ہوگیا ہے ۔ اسی طرح کا حال کانگریس کا ہے ۔ کانگریس حالانکہ انڈیا اتحاد کے نام پر ترنمول کانگریس کی حلیف ضرور ہے لیکن بنگال میں مقامی قائدین اور ترنمول کے درمیان جو اختلاف رائے ہے اس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے رشتوں میں وہ استحکام نہیں ہے جس کی ضرورت ہے ۔ کانگریس ضرور انتخابات میں مقابلہ کرے گی اور یہی امید کمیونسٹ جماعتوں سے بھی کی جاسکتی ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ تمام مخالف بی جے پی جماعتیں ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کیلئے کیا کچھ حکمت عملی اختیار کرتی ہیں۔ یہ حکمت عملی کس نوعیت کی ہوگی اور اس پر کس طرح سے عمل کیا جائے گا یہ ایک اہم اور بنیادی سوال ہے ۔
اس حقیقت کو سبھی جماعتوںکو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ وہ اپنی انتخابی کامیابیوں کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایسے میں تمام مخالف بی جے پی کی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ذاتی پسند اور ناپسند کو بالائے طاق رکھیں۔ شخصی عناد کو ختم کریں۔ بنگال کی سطح پر ترنمول سربراہ ممتابنرجی کی قیادت کو تسلیم کیا جائے ۔ ان کی قیادت کو مستحکم کرنے کیلئے ابھی سے منصوبے بنائے جائیں۔ تجاویز پیش کی جائیں۔ جو تجاویز پیش کی جائیں ان کا جائزہ لیا جائے ۔ ان پر غور و خوض کرتے ہوئے ان کو فراخدلی سے قبول کیا جائے اور ایک مشترکہ منصوبہ تیار کرتے ہوئے بی جے پی کی چالبازیوں اور اس کے حربوں کو ناکام بنانے کیلئے کمر کس لی جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اصل مقابلہ ترنمول اور بی جے پی ہی میں ہوگا اور یہی دو جماعتیں اقتدار کی دعویدار بھی ہیں تاہم دوسری جماعتوں کو ایک سپورٹنگ پلئیر کا رول ضرور ادا کرنا چاہئے ۔ بنگال کے عوام کو یہ تاثر دینے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کے مقابلہ میں ممتابنرجی تنہا نہیں ہیں بلکہ ملک کی تمام سکیولر جماعتیں ان کے ساتھ ہیں اور وہ بنگال کو فرقہ پرست طاقتوں کے اثرسے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ ابھی وقت ہے ۔ اس تعلق سے تمام جماعتوں کو سنجیدگی سے حکمت عملی بنانے پر غور کرنا چاہئے ۔ یہ لڑائی صرف ممتابنرجی کی نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر فکرمند شہر ی کی لڑائی ہے ۔ ہر سکیولر جماعت کی لڑائی ہے اور اس کا حصہ بننا ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے ۔