مغربی بنگال میں بی جے پی کا مظاہرہ کیسا ہوگا؟

   

شیکھا مکرجی
انتخابات کا وقت سیاسی جماعتوں کے لئے آزمائشوں اور رائے دہندوں و تجزیہ نگاروں کے لئے تجسس سے پر ہوتا ہے، جبکہ رائے دہندے کس طرح اپنے امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں اس بارے میں پیش قیاسی کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے اور اس وقت جبکہ سیاسی نقشے، ہوش کی روایتوں سے تبدیل ہوکر باہمی رضامندی سے ہونے والے سیکولر مقابلے میں ڈھل جاتے ہیں اور پھر سیکولر مسابقت سے فرقہ وارانہ طور پر منقسم شناختوں کے ساتھ تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بھارتیہ جنتا پارٹی سیاسی شعبہ میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب رہی ہے اور اس نے کامیابی کے لئے جو طور طریقے اور حربے استعمال کئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اب بی جے پی مغربی بنگال میں اپنی سب سے بڑی لڑائی لڑ رہی ہے۔ وہ ہر روز چاہے گھر ہو یا کام پر ہو یا دور ان سفر یا پھر بازاروں میں صرف اور صرف یہی تاثر دے رہی ہے کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں اس کے امکانات روشن ہیں جبکہ دوسری طرف تجزیہ نگاروں، سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی بی جے پی کے کامیابی کے امکانات کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں۔ بی جے پی نے ایسا تاثر دیا ہے کہ کوئی بھی اس کی کامیابی کی پیش قیاسی کرسکتا ہے اور وہ اس کے لئے نام نہاد ’’ہر کوئی جانتا ہے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کررہی ہے۔ بی جے پی کو مغربی بنگال میں جو توقعات وابستہ ہیں اس کی وجہ دراصل ریاستی حکومت کے خلاف بڑھتی ناراضگی ہے۔ بی جے پی ممتابنرجی کی قیادت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں مصروف ہے جس کا ثبوت بی جے پی کی انتخابی مہم میں نظر آتا ہے۔ بی جے پی نے عوام کو ڈبل انجن سرکار لانے کا ایک طرح سے جھانسہ دیا ہے۔ اس کے قائدین یہی کہہ رہے ہیں کہ مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہو تو پھر ترقی کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔ مغربی بنگال میں بی جے پی ہندو قوم پرستی اور اکثریتی ہندوتوا ایجنڈہ دونوں کے مرکب کو لئے عوام سے رجوع ہو رہی ہے جس کا مقصد رائے دہندوں کو جذباتی طور پر متاثر کرنا ہے۔ بی جے پی ملک کی تقسیم جیسے موضوع کو بھی چھیڑ رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نریندر مودی کی جماعت ریاست مغربی بنگال کے مذہبی تہواروں میں عوام کی شرکت میں رکاوٹ کو بھی موضوع بنا رہی ہے۔ ویسے بھی بنگال میں اس طرح کی انتخابی سیاست اور سیاسی مقابلے عام بات ہے۔ بی جے پی ریاستی صدر دلیپ گھوش سے لے کر پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ درگا پوجا کی تقاریب کیسے منائیں۔ جبکہ ریاست میں سرسوتی پوجا بھی روکی گئی۔ اس بارے میں بی جے پی والوں نے یہی الزام عائد کیا کہ ممتابنرجی حکومت نے مسلم اقلیت کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کے اقدامات کئے۔
تاہم حقائق اور حقیقت کے درمیان خلیج پائی جاتی ہے کیونکہ کووڈ ۔ 19 کے انتہا پر پہنچنے کے دوران بھی درگا پوجا کے پنڈالوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح سرسوتی پوجا کی تقاریب بھی کئی مقامات مقامات پر کئی دنوں تک منائی گئی اور ایک بہت بڑا ایونٹ بھی اس سلسلہ میں منعقد ہوا۔ برقی قمقموں، لاؤڈ اسپیکرس اور گھروں تک کھچڑی اور پرساد کی ڈیلیوری تو معمولی باتیں ہیں۔

دوسری طرف بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ ریاست مغربی بنگال میں نظریات کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ میں ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی آگے ہے۔ اس کی سوشل میڈیا طاقت کے ساتھ ساتھ متعدد وسائل کی حمایت کے سامنے ٹی ایم سی کی کوششیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ بی جے پی ایک قومی جماعت ہے جبکہ ٹی ایم سی صرف ایک علاقائی پارٹی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ بی جے پی رائے دہندوں کو متاثر کرنے میں مصروف ہے۔ بی جے پی قائدین اب ممتابنرجی کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ بات پروفیسر پارتھا چٹرجی کہتے ہیں وہ ایک ممتاز پالیٹیکل سائنٹسٹ اور مورخ ہیں۔ بی جے پی زیادہ تر اشتعال انگیز بیانات پر تکیہ کئے ہوئے ہے اور اسے نے یقینا یہ حساب کتاب لگایا ہوگا کہ کس طرح 294 رکنی اسمبلی میں سے 200 سے زائد نشستوں کا نشانہ پورا کیا جائے اور کس طرح ریاست کی مشترکہ آبادی اور اس کی مذہبی خطوط پر تقسیم بی جے پی کو اقتدار تک پہنچا سکتی ہے۔ بی جے پی قائدین کہیں پر بھی کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہ رہے ہیں ۔ بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش اور قومی نائب صدر مکل رائے جیسے قائدین اس بات کا اعادہ کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی ریاست کے 30 فیصد رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ 30 فیصد رائے دہندے مسلم ہیں اور یہ لوگ بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کریں گے۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں دلیپ گھوش نے واضح طور پر کہا کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے جبکہ بی جے پی 70 فیصد رائے دہندوں پر تکیہ کئے ہوئے ہے تاکہ 294 میں سے 200 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکے۔ آپ کو بتادیں کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں مغربی بنگال میں بی جے پی کا مظاہرہ شاندار رہا۔ اس نے 40.64 فیصد ریکارڈ ووٹ حاصل کئے۔ اگر اسے ذہن میں رکھا جائے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی کو 70 فیصد میں سے 60 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ تاہم یہ اس کی خام خیالی بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس طرح کے اعداد و شمار بی جے پی قائدین اپنے دعوؤں میں پیش کررہے ہیں۔ ویسے بھی ہر حلقہ میں ووٹوں کا شیر مختلف ہوتا ہے اور کوئی بھی پارٹی اس بات کو یقینی نہیں بنا سکتی کہ ووٹوں کی اکثریت اس کے حق میں جائے۔ پروفیسر پارتھا چٹرجی کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ 294 اسمبلی حلقوں میں رائے دہندے کس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ بی جے پی کو 60 تا 80 نشستیں جیتنے کی توقع نہیں ہے جہاں مسلم رائے دہندے کامیابی کا حذف طے کریں گے۔ 294 میں سے 60 یا 80 نشستیں نکال بھی دی جائیں تو بی جے پی کو 214 تا 234 نشستوں پر کامیابی کی امید ہے اور زیادہ تر راست مقابلہ ٹی ایم سی سے ہونے والا ہے اور بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ ہر سیٹ یا نشست کو وہ کامیابی میں بدلے کیونکہ اس نے 200 نشستیں حاصل کرنے سے متعلق ہدف کا اعلان کر رکھا ہے۔ جہاں تک بی جے پی کے رائے دہندوں کا سوال ہے اس کے نظریات کو ماننے والے رائے دہندوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے لیکن یہ رائے دہندے ریاست بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ بی جے پی کو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے اپنے ووٹ نہ صرف مستحکم ہوں بلکہ وہ دوسری جماعتوں کے رائے دہندوں کا بھی شکار کرسکے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے مغربی بنگال کی 42 لوک سبھا نشستوں میں سے 18 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کی نشستوں میں اس قدر غیر معمولی اضافہ اس لئے ممکن ہوسکا کیونکہ رائے دہندوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ) کی زیر قیادت بائیں بازو سے وفاداری ترک کرتے ہوئے واضح طور پر بی جے پی کی تائید کی تھی۔ بائیں بازو کے کم از کم 13 فیصد ووٹ بی جے پی کو منتقل ہوئے تھے جبکہ کانگریس کے 7 فیصد ووٹ بی جے پی نے ہتھیا لئے۔ اس لئے 2021 میں کامیابی کے لئے بی جے پی نے دو ہدف رکھے ہیں۔ ایک تو اپنے ووٹوں کی تعداد میں تقریباً 23 فیصد اضافہ کرنا، کیونکہ 2016 میں اس نے 10.16 فیصد ووٹ حاصل کئے اور پھر 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اسے 40.64 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ایسے میں ٹی ایم سی پر سبقت حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کو اپنے ووٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں ٹی ایم سی نے 43.69 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں ممتابنرجی کی ٹی ایم سی کو 44.91 فیصد ووٹ ملے تھے۔ دیکھا جائے تو دونوں موقعوں پر بی جے پی کی بہ نسبت ٹی ایم سی کا موقف بہتر رہا لیکن بی جے پی جس انداز میں اپنے ووٹ شیر میں اضافہ کررہی ہے وہ ٹی ایم سی کے لئے فکر کا باعث ہے۔ بی جے پی قائدین ایک طرف کانگریس اور بائیں بازو پر انحصار کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ٹی ایم سی بھی کانگریس اور بائیں بازو کے مظاہرے پر تکیہ کئے ہوئے ہیں تاکہ دونوں مقابلہ کرنے والی اہم پارٹیوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کو کم کیا جاسکے جو اندازے لگائے گئے ہیں ان کے مطابق 2019 کے انتخابات میں کانگریس اور بائیں بازونے مجموعی طور پر علیحدہ علیحدہ لڑتے ہوئے 11.4 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اور اس طرح یہی کہا جارہا ہے کہ ان کے ووٹ شیر میں تقریباً 8 فیصد کی کمی ہوگی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں 10 اور 12 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرتی ہیں تو بی جے پی کو 160 تا 180 نشستیں مل سکتی ہیں اور اس سے بی جے پی کو سادہ اکثریت کے لئے درکار 148 سیٹوں پر پہنچنے میں کامیابی ملے گی لیکن اس کی قیادت نے جو ہدف مقرر کر رکھا ہے وہ پورا نہیں ہوگا۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور ٹی ایم سی کی لڑائی میں کانگریس اور بائیں بازو کا فائدہ ہوگا اور یہ اتحاد کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔