مغربی بنگال میں بی جے پی کے عروج کیلئے ترنمول کانگریس ذمہ دار: ڈی راجہ

   

سکیولر طاقتوں کو متحد کرنا ایک زبردست چیلنج، حکومت کارپوریٹ مفادات کی محافظ

چینائی۔29 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) سی پی آئی کے نئے جنرل سکریٹری ڈی راجا نے ایک انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ملک ایسے دور سے گزر رہا ہے جو نہ صرف بائیں بازو کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے بلکہ اس ملک اور اس کی عوام کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ سیدھے بازو کی طاقتوں کو اقتدار حاصل ہوچکا ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس کا ایک سیاسی بازو ہے اور آر ایس ایس کا نظریہ فرقہ وارانہ ہے۔ ذات پات پر مبنی پھوٹ ڈالنے والا اور فاشسٹ ہے۔ یہ لوگ اپنے نظریہ کو جارحانہ انداز میں لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے آئین اور جمہوری سیاست کو خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ حکومت مکمل طور پر کارپوریٹ اور بزنس گھرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے وقف ہوچکی ہے۔ اس کے ایجنڈے کے باعث ملک میں ہجومی قتل، آدی واسیوں، دلتوں اور اقلیتوں پر حملوں کے واقعات ہورہے ہیں۔ اگر کوئی شخص حکومت سے اس بارے میں سوال کرتا ہے یا اس کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتا ہے تو اسے قوم دشمن اور شہری نکسل ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ایک اوراہم چیلنج جو ملک کو درپیش ہے وہ سکیولر اور جمہوری طاقتوں میں اتحاد سے متعلق ہے۔ لیکن نہ صرف کانگریس کے لیے بلکہ دیگر جماعتوں کے لیے جیسے بی ایس پی آر جے پی ایس پی اور بائیں بازو کے لیے بھی اس میں پسپائی واقع ہوئی ہے اور تمام سکیولر طاقتوں کو کس طرح متحد کیا جائے یہ بھی ایک چیلنج ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر بایاں بازو کمزور ہوجائے گا تو ہندوستانی سیاست میں ایک اخلاقی خلا پیدا ہوجائے گا۔ آج بھی بایاں بازو عوام کے لیے امید کی کرن ہے۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ بھی ایک خیال ہے کہ بائیں بازو اور دیگر جماعتوں کی جانب سے ’’اقلیت کی چاپلوسی اور خوشنودی‘‘ کی کوشش سے بھی بی جے پی نے فائدہ اٹھایا۔ انہو ںنے اس سوال کے جواب میں کہا کہ بی جے پی غلط تصویر پیدا کرنے اور جھوٹی باتیں عوام میں پھیلانے میں کامیاب ہوگئی اور عوام کے ذہن کو مسائل سے ہٹادیا۔ لوگوں کو اب محسوس ہورہا ہے کہ کس طرح ’’حق اطلاعات‘‘ ایکٹ بل میں ترمیم کی گئی اور متعدد بل کو پارلیمان سے منظور کروانے کے لیے کس طرح ہر چیز کو پامال کردیا گیا اور بغیر کسی جانچ پڑتال کے انہیں منظوری دے دی گئی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمان اور دیگر جمہوری اداروں کی ان کی نظر میں کیا وقعت ہے۔ با