مغربی بنگال میں مرکز کی ’’ایک ملک ایک راشن کارڈ‘‘ اسکیم پر عمل نہیں ہوگا

   

مرکز سے اختلافات کے علاوہ ڈیجیٹل راشن کارڈس کی اجرائی پر پہلے ہی خرچ کئے گئے 200 کروڑ اصل وجوہات : ریاستی وزیر غذا

کولکتہ۔ 27 فروری (سیاست ڈاٹ کام) حکومت مغربی بنگال مرکزی حکومت کے ’’ایک ملک ایک راشن کارڈ‘‘ اسکیم سے علیحدگی اختیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے کیونکہ اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے مرکزی حکومت کے ساتھ کئی اختلافات ہیں۔ ایک ریاستی وزیر نے یہ بات بتائی۔ اس اسکیم کے تحت استفادہ کنندگان رعایتی داموں پر ملک کے کسی بھی شہر میں اناج کی خریداری کرسکتے ہیں۔ اس طریقہ کار کا مقصد یہ بتایا جارہا ہے کہ کوئی بھی غریب شہری ایک شہر سے دوسرے شہر کو منتقل ہوتا ہے تو اس صورت میں بھی وہ پی ڈی ایس کے فائدہ سے محروم نہیں ہونا چاہئے۔ ریاستی وزیر غذا جیوتی پریہ ملک نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہیں مرکزی حکومت سے کوئی اطلاع نہیں ملی ہے لہذا مرکز کی اس اسکیم میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں انہوں نے مرکزی حکومت سے اختلافات کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ مغربی بنگال حکومت نے ڈیجیٹل راشن کارڈس کی اجرائی میں پہلے ہی 200 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں لہذا اب یہ رقم ہمیں کوئی وائس کرے گا؟ لہذا یہ واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ ہم ایک ملک ایک راشن کارڈ کی اسکیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ علاوہ ازیں ہمیں مرکز سے خطیر رقم موصول ہونا ہنوز باقی ہے جو اب تک 6,000 کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال ریاست کو فنڈس کی ادائی دیگر ریاستوں جیسے پنجاب کے مقابل بے حد کم ہے اور وہ بھی ہر وقت جاری نہیں کی جاتی جبکہ مشرقی ریاستیں دھان کی فصلیں اُگانے میں سب سے آگے ہیں۔ محترمہ ملک نے کہا کہ ریاستوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی انہیں کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مرکز نے ریاستوں اور مرکز کے تحت علاقوں کو ایک ملک ایک راشن کارڈ اسکیم کے کے نفاذ کیلئے 30 جون 2020ء تک مہلت دی ہے۔ جن میں 10 ریاستیں آندھرا پردیش، گجرات، ہریانہ، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرلا، مہاراشٹرا، راجستھان، تلنگانہ اور تریپورہ پورٹیبلیٹی آف پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) پر عمل آوری کررہے ہیں۔ یہ بات وزیر غذا رام ولاس پاسوان نے گزشتہ ماہ کہی تھی۔