مغربی بنگال: ہجومی تشدد کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے والے نوجوان محمد کبیر، اس واقعہ کے بعد کوئی ہجومی تشدد کا واقعہ نہیں۔ مالی امداد کی اپیل

,

   

آسنسول (مغربی بنگال): آج ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان کو کبھی بیف کے نام پر مارا جاتا ہے تو کبھی اس کا نام پوچھ کر مارا جاتا ہے۔ اور کبھی جے شری رام نعرہ لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس سے انکار کرنے پر مسلمان کو شدید زد و کوب کیا جاتا ہے۔ ان ہجومی واقعات میں مسلمانوں کو جان سے ماردیا جارہا ہے۔ کچھ دن قبل تبریز انصاری نامی ایک مسلم نوجوان کو درخت سے باندھ کر مارا گیا۔اس سے قبل دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک مولوی کو مارا گیا۔ اس طرح کے کئی واقعات ملک میں رونما ہورہے ہیں۔ شر پسند عناصر بے باک ہوکر اس طرح کے اقدامات کررہے ہیں۔ پتہ نہیں ان کی پشت پناہی کون کررہا ہے؟ ایسا ہی ایک واقعہ مغربی بنگال میں پیش آیا۔

جہاں شر پسند عناصر نے مغربی بنگال کے بردھامن ضلع کے آسنسول علاقہ میں جاریہ سال 23جولائی کو ایک نوجوان لڑکا محمد کبیر پر حملہ کردیا۔ محمد کبیر نے جواں مردی سے ان حملہ آوروں سے مقابلہ کیا اور اپنا دفاع کیا۔ اور اسی دفاعی حالات میں حملہ آو رکی موت ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی محمد کبیر ایک ہیرو کی طرح ابھر گئے۔ محمد کبیر کون ہے؟ مسلم مرر نامی ایک خبر ایجنسی اس تعلق سے کافی جان کاری حاصل کی ہے۔ کبیر ایک پلاسٹک کے کارخانہ میں ملازم بتایا گیا ہے۔ 23جولائی کو وہ کارخانہ سے گھر واپس لوٹ رہا تھا اسی دوران اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے چار نوجوانوں نے اسے روک لیا اور جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ کبیر حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں سے بھاگنے لگا لیکن چار شر پسندوں میں سے ایک جس کانام سورج بہادر بتایا گیا ہے اس نے کبیر کا تعاقب کیا اور اسے پکڑ لیا۔ کبیر اپنی زندگی کو خطرہ میں دیکھتے ہوئے اپنے دفاع کیلئے اس نے زمین سے ایک اینٹ اٹھائی اور سورج بہادر کے سر پر دے مارا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اسی دوران اس علاقہ کے کئی لوگو ں نے بتایا کہ یہی شر پسند عناصر نے پچھلے دنو ں بھی اسکولی طلبہ کو بھی جے شری رام کہنے کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔

واضح رہے کہ جب سے مودی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ہجومی تشدد کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر شمالی ہندوستان اس لعنت میں گرفتار ہے۔ان ہجومی تشدد کے واقعات میں زیادہ تر مسلم طبقہ متاثر ہے۔ سماجی کارکن سید محمد افروز نے بتایا کہ کبیر کے واقعہ سے قبل برداون ضلع میں ہجومی تشدد کے 14واقعات پیش آچکے ہیں لیکن کبیر کے واقعہ کے بعد کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ اسکول صداقت نامہ کے مطابق محمد کبیرنابالغ ہیں اور ان کا کیس آسنسول کور ٹ میں زیر دوران ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے سربراہ شرف الدین احمد دیگر ذمہ داران کے ساتھ محمد کبیر کے افراد خاندان سے ملاقا ت کئے او رہر ممکنہ مدد کرنے کا تیقن دیا ہے۔ کبیر کی والدہ سونی خاتون اور ان کے بھائی ارمان سے بھی ملاقات کیئے۔ اس کیس کے وکیل شرف الدین احمد نے بتایا کہ ہم ایس ڈی پی آئی کے تعاون سے یہ کیس لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جان کر بہت حیرت اور افسوس ہوا کہ کوئی بھی سیاسی و ملی تنظیم محمد کبیر کی مدد کے لئے آگے نہیں آرہی ہے۔

ان تنظیموں میں جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی، جمعیۃ اہل حدیث، ملی کونسل، مجلس مشاورت، اے آئی یو ڈی ایف اور سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کسی بھی جماعت نے کبیر کے گھر والوں سے ملاقات بھی نہیں کی۔ جو افراد محمد کبیر کی مالی امدا د کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے اکاؤنٹ نمبر پر رقم روانہ کریں۔ کبیر کی ماں کا اکاؤنٹ نمبر
36029462537اور IFSC Code is SBIN0016651
مزید تفصیلات کیلئے کبیر کے بھائی محمد ارمان کے سیل نمبر 9749899034 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔